برف پہ جو بھی نقش کیا ہے
دن نکلا تو پگھل گیا ہے
جنگل ، بادل اور صحرا نے
ایک ہی رستہ دیکھ لیا ہے
دھوپ کی قاشیں پھیل رہی ہیں
پیڑ کا سایہ سمٹ گیا ہے
آنکھیں پھوڑیں، ریت اڑائی
دریا ہم سے نہیں بنا ہے
ایک نظر میں حیرانی ہے
اک لہجے میں زہر گھُلا ہے
کیسے بوجھل دل سے کوئی
شام ڈھلے گھر لوٹ رہا ہے
آج وہ ٹم ٹم کرتا تارا
اپنی جگہ پر نہیں ملا ہے
ہوا کا ایک ملائم جھونکا
تیری جانب بھیج دیا ہے
جانے کس نے رات کا منظر
اس کھڑکی سے باندھ دیا ہے
گلناز کوثر