میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہمارے یہاں پہلے جب کسی گائوں یا دیہات کی سیر وتفریح پر جاتے تھے تو کھلے صحنوں اور ہوادار دالانوں میں ہمیں گائے بھینس بندھی ہوئی نظر آتی تھیں اور مرغیاں اور بکریاں بھی دوڑتی ہوئی کھیلتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں اور ان کے درمیان ہی اس گھر کے لوگ چارپائی بچھا کر بیٹھ جاتے تھے لیکن آج کل کے دنیاوی پڑھے لکھے لوگ اس کو گندگی تصور کرکے منہ پر ماسک لگاکر ایسی جگہوں سے گزرتے ہیں گائوں اور دیہاتوں میں ہماری یہ تہذیب آج بھی قائم ہے بلکہ شہروں میں موجود وہ علاقے جہاں پرانے طرز کے لوگ اپنی زندگی میں مصروف ہیں آج بھی جب ہم گزرتے ہیں تو ہمیں گائے بھینس مرغی یا بکریوں سے بچکر گزرنا پڑتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ گھروں می جانور پالنے سے بلائیں ٹل جایا کرتی ہیں مطلب یہ کہ اگر اس گھر پر کوئی پریشانی یا بڑی مصیبت آنے والی ہو تو یہ جانور اپنی جان کا فدیہ اللہ کی راہ میں دے کر اس گھر کو اس آنے والی پریشانی سے چھٹکارا دلادیتے ہیں اب ہمارے بڑوں کی اس بات میں کتنی صداقت ہے اور کتنی سچائی ہے یہ ایک سوال ہے جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے ہماری آج کی نئی نسل اس بات کو دقیانوسی یا پرانے خیالات کے لوگوں کی سوچ کہتے ہیں اب آیئے ہم اس سوال کا جواب مثنوی شریف کی اس حکایت میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
یہ حکایت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کی ہے کہ ایک شخص جانور پالنے کا شوقین تھا اس کے پاس ایک شاندار گھوڑا ایک عدد بیل ایک مرغا اور ایک کتا تھا ایک دن وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے جانوروں کی بولی سکھا دیجیئے کیونکہ میرے گھر میں جانور ہیں اور میں ان کے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ ہوں لہذہ ان کی بولی بول کر میں سمجھا سکوں گا تو آپ علیہ السلام نے اس سے کہا کہ تیرا یہ شوق ٹھیک نہیں ہے تو اسے ترک کردے تو کہنے لگا کہ اس میں آپ علیہ السلام کا کیا نقصان ہے میرا اگر یہ شوق ہے تو اسے پورا کردیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب وہ زیادہ ضد کرنے لگا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے میرے رب یہ شخص ضد کررہا ہے میں کیا کروں؟ تو فرمایا کہ اگر تیرے سمجھانے پر بھی یہ باز نہیں آتا تو اس کا شوق پورا کردو گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے جانوروں کی بولی سکھا دی اور وہ خوش ہوکر چلا گیا ایک دفعہ جب وہ شخص کھانا کھا کر فارغ ہوا تو اس کی خادمہ نے دسترخوان کو جھاڑ کر اٹھانا چاہا تو اس میں سے ایک روٹی کا ٹکڑا اچھل کر گرا روٹی کے ٹکڑے کو دیکھ کر کتا اور مرغا دونوں لپکے اور بھاگ کر روٹی اٹھانے کی کوشش کی لیکن روٹی مرغے کے ہاتھ لگ گئی اور وہ لیکر چھپ گئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
کتے نے کہا کہ اے ظالم تیرا کھانا تو دانہ ہے اور کہیں سے بھی مل جائے گا لیکن میں بھوکا ہوں مجھے روٹی کھانے دیتی تو تیرا کیا جاتا وہ شخص یہ منظر بھی دیکھ رہا تھا اور ان کی باتیں بھی سن رہا تھا مرغا بولا گھبرا نہیں کل ہمارے مالک کا بیل مرنے والا ہے بس پھر ہم جی بھر کر اس کو کھائیں گے یہ بات سن کر وہ شخص پریشان ہوگیا اور اسی وقت جاکر اس نے وہ بیل بازار میں سستے داموں بیچ دیا دوسرے دن وہ بیل واقعی میں مر گیا لیکن نقصان خریدار کا ہوا اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا دوسرے دن کتا کہنے لگا یہ کیا ہوا مالک نے تو پہلے ہی بیل بیچ دیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
تو مرغے نے کہا کوئی بات نہیں کل اس کا گھوڑا بھی مر جائے گا ہم پھر اسے کھا لیں گے تو یہ بات بھی اس شخص نے سن لی اور نقصان سے بچنے کے لیئے اس نے وہ گھوڑا بھی بیچ دیا اور واقعی میں دوسرے دن گھوڑا بھی مر گیا تب کتے نے مرغے سے کہا کہ یہ سب تجھے کیسے معلوم ہوا تو وہ کہنے لگا جب کسی گھر میں کوئی بڑا سانحہ ہونا ہوتا ہے تو وہاں پر موجود جانوروں کو خبر ہوجاتی ہے اور مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ اس گھر میں بھی ایسا ہونے والا ہے پہلے جب یہاں کچھ ہونے والا تھا تو بیل نے اسے اپنے اوپر لے لیا لیکن بیل یہاں نہیں مری اور مالک نے اسے بیچ دیا اگر ہمارا مالک بیل کو نہیں بیچتا اور وہ یہیں مرجاتی تو یہ بلا ٹل جاتی لیکن ایسا نہ ہوا پھر اس پریشانی نے دوبارا یہاں کا رخ کیا تو اسے گھوڑے نے اپنے اوپر لے لیا لیکن یہاں بھی وہ ہی کچھ ہوا جو بیل کے موقع پر ہوا تھا اگر مالک انہیں نہ بیچتا تو یہ بلا ٹل جاتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا حالانکہ ابھی ہم دونوں بھی موجود ہیں لیکن شاید اب اس پریشانی نے ہمارے مالک کی طرف رخ کرلیا ہے اور اسے اب اپنی جان گنوانی ہوگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
اس مرغے کی یہ بات سن کر کتے نے کہا وہ کیسے تو مرغے نے کہا کہ دیکھنا اب کل ہمارا مالک خود مرجائے گا پھر اس نے بات انداز بدلتے ہوئے کہا اور تو فکر نہ کر اس کے مرنے پر جو کھانے بنیں گے ہم خوب پیٹ بھر کر کھائیں گے ان کی یہ باتیں سن کر اس شخص کے پائوں تلے زمین نکل گئی اور وہ دوڑا دوڑا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوا اور معافی مانگنے لگا کہنے لگا مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے معاف کر دیجیئے اور زندگی کی بھیک مانگنے لگا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کل تک تو بضد تھا کہ تجھے جانوروں کی بولی سکھائی جائے اور جب تجھے اپنی موت نظر آرہی ہے تو معافی مانگنے آیا ہے آپ علیہ السلام نے فرمایاجو میرے ہاتھ میں تھا میں نے کیا اب معاملہ میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے اب یہ معاملہ رب کے ہاتھ میں ہے اور اب وہ ہی ہوگا جو وہ چاہے گا ۔
اور دوسرے دن وہ شخص واقعی میں انتقال کرگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
جب کبھی کاروبار میں نقصان یا گھر میں کوئی پریشانی ہو تو غم اور دکھ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے اللہ کی رضا اور اپنی جان کا فدیہ سمجھ کر صبر اور اس پر اس رب تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیئے اور یہ سوچنا چاہئیے کہ جو ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا مرضی اور منشاء شامل حال تھی ہوسکتا ہے کہ یہ نقصان یا پریشانی ہماری جان پر آجاتی لیکن اسے رب تعالی نے اپنے فضل و کرم سے ہمارے کاروبار کی طرف موڑ دیا اور یہ نقصان ہماری جان کا صدقہ ہو اس لیئے اس پر پریشان نہیں ہونا چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
اس حکایت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی اور ثابت ہوگئی کہ جو بات ہمارے بڑے بوڑھے اور بزرگ کہ گئے ان میں کئی باتوں میں بالکل صداقت اور سچ کا عنصر چھپا ہوا ہوتا ہے اور جہاں تک جانور پالنا اور پلے ہوئے جانور اس جگہ پر آنے والی بلا کو اپنے اوپر لیکر وہاں کے لوگوں کے جان کا صدقہ بن جاتے ہیں یہ بات بھی صحیح اور سچ ہے لہذہ ویسے بھی روزانہ نہیں تواکثر وبیشتر اپنا اور اپنے گھر کے تمام افراد کا صدقہ دیتے رہنا چاہیئے کہ صدقہ ہماری کئی بلائوں کو ٹالنے کا سبب بنتا ہے اور ہماری زندگی کو پریشانیوں اور تکلیفوں سے دور رکھتا ہے ۔
یوسف برکاتی