- Advertisement -

وفا کا ذکر چھڑا تھا کہ رات بیت گئی

تیمور حسن تیمور کی ایک اردو غزل

وفا کا ذکر چھڑا تھا کہ رات بیت گئی

ابھی تو رنگ جما تھا کہ رات بیت گئی

مری طرف چلی آتی ہے نیند خواب لیے

ابھی یہ مژدہ سنا تھا کہ رات بیت گئی

میں رات زیست کا قصہ سنانے بیٹھ گیا

ابھی شروع کیا تھا کہ رات بیت گئی

یہاں تو چاروں طرف اب تلک اندھیرا ہے

کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ رات بیت گئی

یہ کیا طلسم یہ پل بھر میں رات آ بھی گئی

ابھی تو میں نے سنا تھا کہ رات بیت گئی

شب آج کی وہ مرے نام کرنے والا ہے

یہ انکشاف ہوا تھا کہ رات بیت گئی

نوید صبح جو سب کو سناتا پھرتا تھا

وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ رات بیت گئی

اٹھے تھے ہاتھ دعا کے لیے کہ رات کٹے

دعا میں ایسا بھی کیا تھا کہ رات بیت گئی

خوشی ضرور تھی تیمورؔ دن نکلنے کی

مگر یہ غم بھی سوا تھا کہ رات بیت گئی

تیمور حسن تیمور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از سعادت حسن منٹو