یہ میری سب سے بڑی بھابی ہیں۔ میرے سب سے بڑے بھائی کی سب سے بڑی بیوی۔ اس سے میرا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ میرے بھائی کی خدا نہ کرے بہت سی بیویاں ہیں۔ ویسے اگر آپ اس طرح سے ابھر کر سوال کریں تو میرے بھائی کی کوئی بیوی نہیں، وہ اب تک کنوارا ہے۔ اس کی روح کنواری ہے۔ ویسے دنیا کی نظروں میں وہ بڑی بھابی کا خدائے مجازی ہے اور پون درجن بچوں کا باپ ہے۔ اس کی شادی ہوئی، دولھا بنا، گھوڑے پر چڑھا، دلھن کو گھر لا کر پلنگ پر بٹھایا پھر پاس ہی خود بھی بیٹھ گیا۔ اور جب سے برابر بیٹھ رہا ہے۔ لیکن تصوف کی باتیں سمجھنے والوں ہی کو معلوم ہے کہ وہ کنوارا ہے اورسدا کنوارا رہے گا۔ اس کا دل نہ بیاہ سکا اور نہ کبھی بیاہ سکے گا، وہ نہ کبھی دولھا بنا نہ گھوڑے پر چڑھا نہ دلہن کو لایا نہ اس کے سنگ اٹھا بیٹھا۔ وہ تو اس کا باپ تھا جس نے اس کا بیاہ طے کیا، ایرے غیرے نتھو خیرے کی رائے سے۔ وہ بغاوت کے بخار میں جھلستا رہا مگر چوں نہ کر سکا۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا۔ اس کے باپ کے ہاتھ بڑے تگڑے ہیں اور جوتے اس سے بھی تگڑے ۔اس لےس اس نے بہتر سمجھا کہ وہ شہید تو ہو ہی رہا ہے جوتے سے شہید نہ ہو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا وہ دولھا بنا اور سہرے کے پیچھے تاڑنے والوں نے تاڑ لیا کہ ایک اور سہرا بندھا ہے جو اس کے ارمانوں کے خون میں ڈوبے ہوئے آنسوؤں سے گوندھا گیا ہے، جس میں اس کی نہ سنائی دینے والی سسکیاں پوری ہوئی ہیں۔ جس میں اس کے مسلے ہوئے جذبات اور کچلی ہوئی مسرتیں بندھی ہوئی ہیں۔ وہ گھوڑے پر نہیں چڑھا۔ اس کی میت ماں باپ کی ہٹ دھرمی کے گھوڑے پر لٹکا دی گئی۔ وہ اپنی دلھن نہیں لایا بلکہ وہ ماں باپ کی دلھن تھی۔ ان ہی کی بیاہتا تھی۔
مگر ایک مجبور بیٹے کی طرح بنا آہ و زاری کےھ وہ دلھن کے پاس بھی گیا۔ اس کا گھونگھٹ بھی ہٹایا مگر وہ یہی ارادہ کر چکا تھا کہ وہ خود وہاں نہیں، یہ اس کا باپ ہے جو اس دلھن کا دولھا ہے،مگر چونکہ میری بھابی اس وقت بڑی نہ تھی۔ میرا مطلب ہے جسمانی طور پر وہ دبلی پتلی اور نازک سی چھوکری تھی، اس لےے ایک لمحہ کو میرے بڑے بھائی کا جسم اس سے بیاہ گیا لیکن بہت جلد ہی وہ دبلی پتلی عورت بڑھنا شروع ہوئی اور چند سال ہی میں وہ پھول پھال کر بے تکے گوشت کا ڈھیر بن گئی۔ میرے بھائی نے اس کے اوپر چڑھتے ہوئے گوشت کو نہ روکا۔ اس کی جوتی روکتی۔ وہ اس کی تھی کون؟۔
لیکن وہ بچے ۔۔۔ اس کے ماں باپ کے بچے جنھیں وہ کبھی بھولے بھی نہ چھوتا ،تعداد میں بڑھتے رہے۔ ناکیں سرسڑاتے، میلی ٹانگیں اچھالتے ،واویلا مچاتے۔ مگر میرے بھائی کے دل کے دروازے ویسے ہی بند رہے، وہ ویسا ہی کنوارا اور بانجھ رہا۔ میری بھابی کچھ ایسی ان مرحلوں میں پھنسی کہ اس نے پلٹ کر بھی بھیا کی طرف نہ دیکھا۔ جیسے کہتی ہوں، میں تو پہلے ساس سسر کی بہو ہوں، نند کی بھاوج ہوں، بچوں کی اماں ہوں، نوکروں کی مالک ہوں، محلے ٹولے کی بہو بیٹی ہوں پھر اگر وقت ملا تو تمہاری بیوی بھی بن جاؤں گی۔
بھیا کو اس طرح ساجے کی ہانڈی بڑی پھیکی سیٹی اور بے مزہ لگی اور اس نے اپنا دل سنبھال کر اٹھایا۔ بکھرے ریزے سمیٹے اور تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اس نے کتنے ہی آستانوں پر اس چکنا چور شیشے کے ٹکڑے کو جا کر رکھا، مگر کوئی مرہم کوئی دوا ایسی نہ ملی جو ان ریزروں کو جوڑ دیتی اس لے وہ اب بھی اپنا کنوارا دل لے پھر رہا ہے کسی دل والی کی تلاش میں۔
اس نے دل والیوں کو رنڈیوں کے کوٹھے پر ڈھونڈا۔ گندی گلیوں میں گھومنے والی ٹکہائیاں میں تلاش کیا۔ ریڈیو اسیشنودں پر گانے والی حسیناؤں اور آرٹسٹوں میں ٹٹولا۔ ہسپتالوں کی نرسوں میں بھی جستجو کی۔ فلمی پریوں کی گپھاؤں میں بھی بھٹکا اور اکسٹرا لڑکیوں کے جھرمٹ میں بھی جھانکا۔ جاہل گاؤں کی گنواریوں، سڑک کی کوٹنے والیوں۔ مچھیرنوں اور بھٹیاریوں کے آگے بھی ہاتھ پھیلایا۔ ڈارئنگ روم میں اگنے والی اور باتھ روم میں تھرکنے والی شریف زادیوں سے بھی بھیک مانگی مگر اسے دل والی کہیں نہ ملی ۔لاکھوں ہی گھونگھٹ پلٹ ڈالے مگر وہی عورت، وہی ساس سسر کی بہو، وہی ان کے ہی بال بچوں کی ماں دکھائی دی۔
میری بھابی سب سے بڑی سہی مگر زیادہ عقلمند ہر گزنہیں۔ اس نے میاں کو جھوٹے بہلا وے کبھی نہ دیے۔ جیسے پہلی ہی رات کو وہ سمجھ گئی کہ اپنی جان گھسانا حماقت ہے، ان تلوں سے تیل نہ نکلے گا۔ اور دنیا سے جی کڑوا کر کے کالے کلوٹے، ٹیڑھے بھینگے بچے تو خود بخود اس کے پیٹ میں تعمیر ہوتے رہے۔ وہ تو ابکائیاں لینے اور بد وضع بننے کے سوا کچھ بھی نہ کرتی رہی۔ اور یہ بچے میرے بھیا سے انتقام لینے کا مفید آلہ ثابت ہوئے۔ جب ناک چاٹتے، نگ دھڑنگ بسورتے ہوئے کینچوے کسی محفل یا پارٹی میں میرے بھیا کو چھو دیتے ہیں تو وہ ایسے اچھل پڑتے ہیں جیسے بچھو نے چٹک لیا ہواو رجب کبھی بھولے سے کوئی احمق مہمان گھر میں گھر جاتا تو یہی تہذیب اور نفاست کے قاتل ادب اورسلیقہ کے دشمن اس کی چھاتی پر کودوں دل کر اس کو ڈوب مرنے کی ترغیبیں دیا کرتے ہیں۔
ان کے علاوہ گھر کے میلے بچھونے ،میلے فرش اور چھچلا ندے برتن ایک نفیس دماغ روح کو ابدی مرگھٹ میں سلانے کے لےچ کافی نہ پاکر میری بھابی نے جملہ ترکیبوں اور خوش گفتاریوں کے زریں نسخے استعمال کر کے آنے جانے یا مستقل رہنے کے شوقین رشتہ داروں کا سلسلہ بھی منقطع کر دیا ہے۔
اسی لیے تو بیچارہ دل والی کی تلاش میں زر زمین لٹاتا پھرتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی محبوبہ دلنواز موقع پاکر اس کا فرنیچر فروخت کر کے، مکان پگڑی پر اٹھا کر حتی کہ اس کے کپڑے بھی اپنے نئے عاشق کے لےک لے کر بھاگ جاتی ہے اور وہ پھر ویسا ہی لنڈورا اور یتیم رہ جاتا ہے۔
ویسے بھی اسے عشق راس نہیں آتا جہاں کے لوگ آوارگی کرتے ہیں۔ پر گھنٹیاں کسی کے گلے میں نںرے لٹک جاتیں۔ وہ تو اگر بھولے سے کسی کی طرف مسکرا کر بھی دیکھ لیا تو وہ عورت فوراً حاملہ ہو جاتی ہے۔ اور اس کی جان پر ایک عدد تحفہ نازل کر دیتی ہے جسے وہ بلی کے گو کی طرح چھپاتا پھرتا ہے۔ وہ اپنے جائز بچوں سے ذرا نںیک شرماتا مگر اس کی علتوں سے اس کی عزت پر حرف آنے کا خوف ہے، وہ بڑا با عزت ہے نا۔
وہ اپنی اس مصیبت کو دنیا کی سب سے بڑی آفت سمجھتا ہے۔ جب اس کے دل کی دنیا اجاڑ پڑی ہے تو لوگوں کو بھوک، مہنگائی اور بے کاری جیسی بے مصرف چیزوں کے بارے میں کچھ سوچنے کا کیا حق ہے۔ دل ہے تو سب کچھ ہے۔
آپ سمجھیں گے کہ وہ کوئی جنسی مریض ہے۔ عورت کا بھو کا ہے۔ جی نہیں، اس ظالم عورت کی وجہ سے تو اسے بارہا شدید قسم کی بدہضمی بھی ہو چکی ہے۔ تو بات دراصل یہ ہے کہ وہ ایسے ماحول کی پیدائش ہے۔ جہاں غم دنیا کو غم عقبی کی آڑ میں چھپانا سکھایا جاتا ہے۔ جہاں ہر جسمانی محرومی کا الزام نصیب کے سر اور روحانی تشنگی کا ٹھیکہ معشوق کے ذمے۔ وہ قسمت کے پیچھے ڈنڈا لے کر پڑا ہوا ہے۔ ایک دن اسے نصیب کہیں دبکا ہوا مل جائے گا اور وہ اس کا سرپاش پاش کر دے گا ۔پھر وہ ہو گا اور اس کی محبوبہ ۔ لیکن اسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ اس کا نصیب اس کی پیٹھ پر بیٹھا ہے اور اس کی چربی چڑھی آنکھوں کو کھی نظر نہ آئے گا۔
اور ان کڑوے کسیلے ماں باپ اور فرسودہ نظام کے سایے میں پون درجن بچے پر وان چڑھ رہے ہیں۔ آنے والی پود اگ رہی ہے اور زندگیاں سانچوں میں ڈھل رہی ہیں۔ نامعلوم منزل تک گھسٹنے کے لےھ، دنیا میں تلخی اور افلاس کی پال پوس کرنے کے لے ۔
یہ میری دوسری بھابی ہے۔ میرے بھائی کی انمول دلھن۔ اس کی قسمت کا چمکتا دمکتا سورج اس کی مشعل راہ۔ میرا بھائی بڑا ہی تقدیر والا ہے۔ اس نے ایک غریب گھر میں جنم لیا، سردیوں کی ادھ مری روشنی میں پڑھ پڑھ کر ایک دن جب روشن ستارے کی طرح جگمگایا تو ایک بڑی سی مچھلی آئی اور اسے ثابت نگل گئی۔
جوں ہی اس نے اول نمبروں سے بی۔ اے۔ پاس کیا نواب گھمن کی نظر التفات اس پر پڑ گئی۔ نہ جانے کدھر کے رشتے ناطے جوڑ توڑ کر پروفیسروں کے ذریعے کانٹا مارا اور دیکھتے ہی ایک چھوڑ ہزار جان سے اس پر فریفتہ ہو گےط۔ پھر اسے اپنی سب سے چہیتی باندی کی سب سے لاڈلی بیٹی کو بخش دیا۔ بادا بہتیرا پھد کے مگر ایک طرف تو تھی نواب زادی اور انگلینڈ جانے کا خرچہ اور دوسری طرف کھوسٹ باپ اور اپاہج ماں اور بن بیاہی بہنوں کی پلٹن کی پلٹن اور ادھ پڑھے بھائیوں کی فوج۔ ظاہر ہے کہ بازی بڑے حلق والی مچھلی کے ہاتھ رہی اور بقیہ جونکیں منہ دیکھتی رہ گئیں۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ۔ اماں کو سمدھن بننے کا شوق، بہنوں کی نیگ اڑانے کی تمنا دل کی دل ہی میں رہ گئی اور پوت پتنگا بن کر سات سمندر پار اڑ گیا۔
اماں نے جی پر پتھر رکھ لیا تھا کہ بلا سے ہڈی نیچی ہے تو جہیز ہی سے آنسو بجھ جائیں گے۔ ماشاء اللہ اتنے سامان سے پلٹن کے دو چار سپاہی تو لیس ہو جائیں گے۔ دولھا کی سلامی سے ہی دو تین بھائیوں کی ناؤ پار اتر جائے گی۔ مگر سارے ارمان، سارے حوصلے پھر سے اڑ گےک جب نواب کی ایک کوٹھی دلہن کا مائکا اور دوسری سسرال بنی اور بہو ایک کوٹھی سے دوسری کوٹھی کو بیاہ دی گئی۔
انگلنڈٹ سے لوٹ کر دولھا بیاہ کر سسرال چلا گیا اور اماں باوا نئے سرے سے دوسرا پودا سینچےک پر جٹ گےی۔ پھر کسی دن اس پودے کے چکنے چکنے پات کسی باغبان کو نظر آ گے تو وہ اسے بھی اس گھورے سے سمیٹ کر اپنے ’’سرہاؤس‘‘ میں لے جا کر رکھ دے گا اور اماں باوا ایڑیاں رگڑتے آخر ی منزل کو جا کر پکڑ لیں گے۔
اب یہ پہلا پودا اپنے سسر کی ریاست میں کسی مفت خوروں والے عہدے پر فائز ہے۔ علاوہ تنخواہ کے موٹر، گھوڑا گاڑی، کوٹھی، بنگلہ، نوکر چاکر اور ایک عدد نواب زادی اسے ملی ہوئی ہے۔ صبح اٹھ کر دربار میں تین سلام جھاڑچکنے کے بعد وہ دن بھر پڑا کوٹھی میں اینڈتا ہے۔ کبھی کبھی اسے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس کی حیثیت افزائش نسل کے لیے استعمال کےن جانے والے سانڈ سے زیادہ نہیں جو تھان پر بندھا اگلی ہوئی قے کی جگالی کےت جا رہا ہے۔
اس کی بیوی یعنی نواب زادی کبھی اس کے غلیظ گھر نہ آتی مگر جب بوڑھے باپ نے دنیا کی جنگ سے عاجز آکر ہتھیار ڈال دیے تو وہ مع اپنے پورے تام جھام کے دو گھڑی کو آئی۔ اس وقت بیچارے نوابی داماد کی شرم کے مارے بری حالت ہو گئی جیسے گورنر وائسرائے کی سواری آرہی ہو تو ایک صاف سی سڑک چن کر جھنڈیاں لگادی جاتی ہیں تاکہ وائسرائےسمجھے کہ سارا ملک ایسا ہی صاف اور جھنڈیوں سے سجا ہوا ہے۔
اس طرح گھر کا سارا کوڑا کرکٹ نظروں سے اوجھل رکھ دیا گیا۔ میت اٹھنے سے پہلے ہی نواب زادی اٹھ کر چل دیں اور ساتھ ساتھ وہ داماد بھی۔ مگر بڑے حساس دل کا مالک ہے ۔وہ سب کچھ سمجھتا ہے اور اس کے دل پر برف کے گھونسے ہر دم لگا کر تے ہیں۔اس لےل وہ جلد از جلد اس ماحول میں سمونے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور خود فراموشی کے لےھ شراب پیتا ہے۔ تب وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ سہانے موسم آ گے ہیں اور آس پاس کی ریاستوں کے رنگین مزاج سیر و شکار کو آ جا رہے ہیں۔ اس کی بیوی دوسری نواب زادیوں کی طرح ہرنی بن کر چوکڑیاں بھر رہی ہے۔ وہ خود تین سلام جھاڑ رہا ہے۔ آرام دہ کمرے میں سر و پیر سے بے خبر پڑا ہے۔ اب تو اسے اپنی رفیق زندگی کی آنکھوں میں سے گذرتے ہوئے سوال بھی نہیں جگا سکتے۔ وہ یہی تو کہتی ہے کہ ’’تمہارا مصرف کیا ہے؟ میرے باپ کی جلد بازی نے تمہیں اس جنت ارضی میں لا ڈالا ہے اسے غنیمت جانو۔ جو یہ نہ ہوتا تو جوتیاں چٹخاتے پھرتے۔‘‘ ایسے موقع پر اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ دنیا کو دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر دے پٹخے اور۔۔۔
مگر وہ اس خیال کو اپنے دماغ میں جڑ پکڑ نے سے پہلے ہی اکھاڑ پھینکتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ انگلینڈ سے کوئی ڈگری یا ڈپلوما تو لا نہ سکا۔ اس کے جاتے ہی صاحبزادی صاحبہ کو دل کے دورے پڑنے لگے اور انھوں نے رو رو کر اسے واپس بلوالیا ،اس لےح بیچارے کی حالت ایسی نیم پخت روٹی جیسی ہے جو قبل از وقت توے سے پھسل کر گھی میں آن گری ہو، اوپر سے کاہلی اور بے کاری کی پھپھوند نے اسے اور بھی بے مصرف بنا دیا۔ وہ ایر کنڈیشن کمروں میں سو سو کر اپنی پرانی کچی کھپریل سے کانپنے لگا ہے۔ فلش کا عادی ہو کر اسے غلیظ کچے سنڈاس کے خیال سے بخار چڑھتا ہے۔ اس کی قسمت کا ستارہ بلندیوں پر ٹمٹماتا ہے۔ جسے پکڑنے کے لےا وہ آوارہ بگولے کی طرح سرگرداں ہےاور جب وہ بہت تھک جاتا ہے تو غصے میں آ کر وہسکی کی مقدار پیگ میں دوگنی کر کے پر سکون جمائیاں لینے لگتا ہے۔ یہی اس کی کش مکش ہے اوریہی زندگی کی جدوجہد۔ نمک کی کان میں جا کر وہ بھی تو نمک کا کھمبا بن چکا ہے۔
جب ان نمک کی کانوں پر پھاوڑوں کی چوٹ پڑے گی اور ان کے پرخچے اڑکر روٹوکں میں گوندھ ڈالے جائیں گے تو اس خالص نمک کے تو دے کی روٹی نمکین نہیں بلکہ کر کری ہو گی، پھر اس کی کرکری روٹی کا نوالہ بھی تھوک دیا جائے گا۔
میری ایک بھابی اوربھی ہے۔ یہ تعلیم یافتہ کہلاتی ہے، اسے ایک کامیاب بیوی بننے کی مکمل تعلیم ملی ہے۔ وہ ستار بجا سکتی ہے۔ پینٹنگ کر سکتی ہے۔ ٹینس کھیلنے، موٹر چلانے اور گھوڑے کی سواری میں مشاق ہے۔ بچوں کی پرورش آیا سے بخیر و خوبی کر واسکتی ہے۔ بہ یک وقت سو ڈیڑھ سو مہمانوں کی آؤ بھگت کر سکتی ہے۔ میرا مطلب ہے بیرا لوگ کو اپنی نگرانی میں لے کر۔ بڑے لاڈ پیار سے اس کی کانوینٹ میں تربیت ہوئی اور جب خدا رکھے سن بلوغ کو پہونچی تو اس کے روشن خیال والدین نے اس کے حضور میں ہونہار امیدواروں کی ایک رجمنٹ کو پیش ہونے کی اجازت دے دی۔ ان میں آئی۔ سی۔ ایس بھی تھے اور پی۔ سی۔ ایس بھی تھے۔ حسین اور تعلیم یافتہ بھی تھے، بدصورت اور دودھاری گائیں بھی ،اشرفیوں کے تھیلوں کے ساتھ ساتھ منہ کا مزہ بدلنے کو کچھ ادیب بھی اور شاعر بھی اور پھر اس سے کہہ دیا کہ بیٹی تیرے آنکھیں بھی ہیں اور ناک بھی، خوب ٹھوک بجا کر ایک بکرا چھانٹ لے۔
سو اس نے خوب جانچ پڑتال کر ایک اپنے ہی پلے کا بھاری بھرکم چن لیا اور اس پر عاشق ہو گئی جس کی داد اس کے والدین نے عظیم الشان جہیز کی صورت میں دی۔
لوگ اس ہنس ہنسیز کے جوڑے کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور وہ بھی شدت الفت میں بیتاب ہو کر ایک دوسرے کو ’’ڈارلنگ‘‘ کہتے ہیں۔
دونوں میاں بیوی ایک ہی فرمے کے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے مزاج یکساں، پسند اور ناپسند یکساں، غرض ہر بات یکساں ہے۔ دونوں ایک ہی کلب کے ممبر ہیں، دونوں ایک ہی سوسائٹی کے چہیتے فرد۔۔۔ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ایک دوسرے سے اتنی شدید قسم کی نفرت ہے، وہ مہینوں ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھتے۔ فرصت ہی نہیں ملتی۔
مایں کا ایک دوسرے اعلی افسر کی بیوی سے مشہور و معروف قسم کا عشق چل رہا ہے اور بیوی اس کے ایک ہم عصر سے مانوس ہے، جس کی بیوی اپنی سہیلی کے میاں سے اٹکی ہوئی ہے یہ سہیلی ایک سار جنٹ کے دام الفت میں گرفتار ہے جس کی اپنی بیوی ایک بوجھل سے سیٹھ کے پاس رہتی ہے،جس کی پرانی چیچک رو بیوی منیجرسےالجھی ہوئی ہے جو اینگلو انڈین لڑکیوں کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ جو ملٹری کے نوعمر۔۔۔ انھیں چھوڑیے بھی ،کیا فائدہ دخل در معقولات سے۔ میرے بال نائی کے پاس، نائی کا استرہ میرے پاس۔ میرا استرہ گھسیارے کے پاس۔ اس طرح یہ زنجیر ایک حلقہ کے منہ میں دوسرے کی دم لےپ دنیا کے گرد چکر کاٹ رہی ہے۔ میری بھابی بھی اس زنجیر کا ایک حلقہ ہے اور وہاں جب تک لٹکی رہے گی جب تک زنجیر کرۂ ارض کو جکڑے رہے گی۔
اور میری تیسری بھابی تو جگ کی دلھن ہے۔ وہ اس سڑک کے مانند ہے جس پر سب چلتے ہیں۔ اس چھاؤں کی طرح ہے جو ہر تھکے ماندے کو اپنی آغوش میں تھپکیاں دے کر خود فراموشی کے اسباب مہیا کرتی ہے۔ وہ ساجھے کی ہانڈی ہے جو آخر میں چوراہے پر پھوٹے گی، وہ جنھیں منہ کا مزا بدلنے کے لے نعمت خانہ میں مال مصالحہ رکھنے کی توفیق نہیں وہ اس صلائے عام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
وہ روز شام کو نئے دولھا کی دلھن بنتی ہے اور صبح کو بیوا ہو جاتی ہے ۔ وہ اپنی ان بہنوں سے خوش نصیب ہے جو اللہ کی دین سے ایک شب میں دس بارہ بار دلھن بنتی ہیں۔ دس براتیں چڑھتی ہیں اور دس بار رانڈ ہوتی ہیں۔ بعض لوگ نک چڑھی پڑوسنوں کی طرح اس پر ٹیڑھی ٹیڑھی نظریں ڈالتے ہیں ،ان کا خیال ہے کہ وہ کچھ نیچ ہے۔کوئی گناہ کر رہی ہے۔
مگر خود اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کون ساپاپ کر رہی ہے۔ دنیا میں کیا نہیں بکتا اور کیا نہیں خریدا جاتا۔ جو لوگ اسے جسم بیچتا دیکھ کر اتنا بلبلا اٹھتے ہیں کیا لوگ پیسے کے عوض اپنے دماغ نہں بیچتے ۔اپنے تخیلات کا سودا نہیں کرتے۔ اپنا ضمیر نہیں بیچتے۔ معصوموں کا خون بھی تو آٹے میں گندھ کر بکتا ہے۔ کاری گر کا گاڑھا پسینہ بھی تو کپڑے کے تھان رنگ کر فروخت کیا جاتا ہے۔ ایک کلرک کی پوری زندگی چالیس روپیہ مہینے پر بک جاتی ہے۔ ایک ٹیچر کی پوری عمر کا سودا اتنے ہی داموں پر ہو جاتا ہے۔تو پھر اس جسم خاکی کے لےن کیوں اتنی لےدے۔
اور اس کا باپ کا لے بازار کا معزز ستون تھا۔ اس کا بھائی ناجائز ذرائع سے ناجائز لوگوں تک پہنچتا تھا۔ اس کا دوسرا بھائی پولیس کا ذمہ دار فرد ہوتے ہوئے بھی غیر ذمہ دار نہ حرکتیں کیا کرتا تھا۔ اور دنیا ان سب کو جانتے ہوئے بھی انھیں گلے سے لگائے بیٹھی ہے۔ وہ بھی تو آخر انھیں میں سے ایک ہے جہاں آوے کا آوا ٹیڑھا ہے وہاں اس کی بھی کھپت ہونی چاہئیے۔
ویسے وہ کوئی پشت ہا پشت کی رنڈی نںی ۔ اس میں اس کا کیا قصور، وہ آرٹ کی خدمت کرنے فلم لائن میں گئی اور وہاں سے لوگ نہ جانے کب اور کیسے اسے دھیرے دھیرے اس کونے میں کھینچ لائے۔ اس نے یہی تو کیا فلم اسٹار بننے کی خاطر ہر آستانے پر سر ٹکایا۔ فنائنسرسے لے کر ایکٹر تک کے گھر کی خاک چھانتے چھانتے وہ خود چھلنی بن گئی۔ اس گڑ بڑ میں وہ نہ جانے کون سا ریہرسل غلط کر گئی جو بجائے آسمان فلم کا درخشاں ستارہ بننے کے وہ یہاں سڑک کے کنارے ٹمٹمانے لگی۔
یہی نہیں کہ اس نے شادی نہ کی ہو، اس نے اس کوچے کی بھی دشت پیمائی کر کے دیکھ لی، مگر شادی کے چند ہی مہینے بعد اس کامیاں، حسب معمول ادھر ادھر جانے لگا۔ وہ شاید تنگی ترشی میں بھی گزر کر لیتی، مگر وہ توجتنے پیر سکوڑتی گئی اتنی ہی وہ چادر کترتا گیا۔
سوائے بیوی بننے کے اسے اور کوئی ہنر نہ آتا تھا، وہ چاہتی تو تیس پنتیس کی استانی گری کر لیتی مگر اتنے روپئے سے تو اسے شمپو کا خرچ چلانے کی بھی عادت نہ تھی،یا ہسپتال میں نرس بننے کی کوشش کر تی، اور ساٹھ روپئے کے عوض خون، پیپ ، کھانسی، بخار، قے، دست میں قلابازیاں کھاتی، لیکن وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس قسم کی حماقتوں میں جان کھپانے کا شوق اس کے خمیر میں حلول نہیں ۔مجبورا اسے فلم کے دروازے پر دستک دینی پڑی۔
رنگین فلم ہندوستان میں بنتی تو شاید اس کا میدا شہاب رنگ کچھ برق پاشیاں کر سکتا۔ لیکن ان کالی سفید فلموں میں اس کی چوڑی چکلی ناک اور چند ہی آنکھوں نے اس کی لٹیا ڈبودی۔ دوچار تھکی ہاری فلمیں بنا کر وہ فنائنسر کی آغوش سے گر کر ڈائرکٹر کے پاس آئی۔ وہاں سے پھسلی تو ہیرو اور سائڈ ہیرو کے ہتھے چڑھی۔ اس کے بعد ایک کیمرہ مین لپکا۔۔۔ وہاں سے جو ٹپکی تو قعر گمنامی میں کھسک گئی اور جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو اس بازار حسن میں معلق پایا مگر وہ اب بڑی سمجھدا ہو گئی ہے۔ اپنے گاہکوں کو بڑی ہوشیاری سے ناپتی تولتی۔ اگر کسی دن کوئی موٹی مرغی، بدصورت بیوی اور غلیظ بچوں کی ہنکالی ہاتھ آ گئی تو وہ اسے اپنا مستقل گاہک بنا ڈالے گی اور سرکار سے اس استقلال کا سارٹیفکٹ حاصل کر کے کالے بازار کے آئندہ ستون تعمیر کرنا شروع کر دے گی۔
یہ ہیں آدم و حوا کے جانشین۔ تخلیق کے علم بردار اور دنیا کی گاڑی کو چلانے والے جو بجائے چلانے کے اسے لات گھونسے سے آگے پیچھے ڈھکیل رہے ہیں۔
مگر ٹھہریے میری ایک اور بھابی ہے۔ پروہ نہ جانے کہاں ہے۔ میں نے ایک آدھ بار صرف اس کی جھلک دیکھی ہے۔ کبھی اس کے ماتھے پر ڈھلکے ہوئے زرتار آنچل کو دیکھا ہے۔ مگر اسے پرچم بنتے نہیں دیکھا۔ ان کی دودھ ایسی پیشانی پر محنت کی افشاں چنی دیکھی ہے۔ مگر اس افشاں میں اوداپیلے نیلے سب رنگ ہیں اور سہاگ کی سرخی کی جھلک نظر نہیں آتی۔ میں نے اس کی حسین انگلیاں تو دیکھی ہیں مگر انھیں الجھے بالوں کا پیچ و خم سلجھاتے نہیں دیکھا۔ اس کی سانولی شام کو شرمانے والی زلفوں کی گھٹائیں دیکھی ہیں مگر انھیں کسی کے تھکے ہوئے شانوں پر پریشان ہوتے نہیں دیکھا۔ مں نے اس کا چکنا میدے کی لوئی جیسا پیٹ تو دیکھا ہے مگر اس میں ابھی نئی امید کے پودے کو پروان چڑھتے نہیں دیکھا۔ میں نے اس کی چتونیں دیکھی ہیں مگر انھیں شمشیر بنتے نہیں دیکھا۔
سنتے ہیں سنہرے دیسوں میں وہ آن بسی ہے اور ماتھے کی افشاں امر سہاگ کا سیندور بن چکی ہے۔۔۔ اس کی مہکتی زلفیں چوڑے چکلے شانوں پر بکھر رہی ہیں۔۔۔ اس کی پتلی پتلی انگلیاں الجھے بال ہی نہیں سلجھا رہی ہیں بلکہ بندوقوں میں کارتوس بھر رہی ہیں اور تلواروں کی دھار پر اپنی تیکھی چتونوں سے سان رکھ رہی ہیں۔
دور جانے کی ضرورت نہیں۔ یہیں بہت قریب میرے پڑوس میں تلنگانہ کی البیلیاں جی وار جوانوں کی آرتیاں اتار رہی ہیں۔ اور ان کے ہتھیاروں پر عقیدت کے پھول چڑھا کر سیندور کے ٹیکے لگا ہی ہیں۔
میرا ارادہ ہے کہ ایک دن میں بھی اس سر زمین پر جاؤں گی اور ان سہاگنوں کے ماتھے کا تھوڑا سا سیندور مانگ لاؤں گی۔۔۔ اور اسے اپنی مانگ میں رچاؤں گی۔
اور پھر وہ میری چہیتی بھابی میرے دیس کے کونے کونے میں آن بسے گی۔ اگر ان ساس نندوں کے ڈر سے میری بھابی بن کر نہ آ سکی تو میں دعوے سے کہتی ہوں، کہ وہ میری بہوبن کر تو ضرور آئے گی۔
عصمت چغتائی