محمد ایوب صابرؔ کا شعری آہنگ
از ڈاکٹر ساحل سلہری
محمد ایوب صابرؔ کا شعری آہنگ
محمد ایوب صابرؔ بطورشخص اور شاعر دونوں اعتبار سے لائق تحسین ہیں۔ وہ گذشتہ دو دہائیوں سے بڑے اعتماد کے ساتھ اُردو غزل کہہ رہے ہیں۔ان کے تین شعری مجموعے‘‘اعزاز کی قیمت’’، ‘‘اذانِ سحر’’ اور ‘‘اسلاف کی دستک’’ اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ان کا اولین شعری مجموعہ‘‘اعزاز کی قیمت’’ ۲۰۰۶ء میں دعا پبلی کیشنز ،لاہور سے شایع ہوا۔ ان کا یہ شعری مجموعہ مقصدی شاعری میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔صابرؔ کی غزلوں میں اصلاح معاشرہ کےعناصر نمایاں ملتے ہیں۔ ان کی شاعری کا اختصاص یہ ہے کہ انسانی اقدار کی عکاسی کرتی ہے۔محمدایوب صابرؔ وطن، قوم، امتِ مسلمہ اور اسلامی تہذیب وثقافت سے محبت کرنے والا اصیل شاعر ہے۔انھوں نے اپنی غزلوں میں اسلاف کے کارناموں اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا بہت ذکر کیا ہے۔ انھوں نے بالخصوص اسلامی روایات اور طرز معاشرت کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ وہ اکثر اشعار میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور مٹتے ہوئے اسلامی و ملّی کلچر پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں۔اس ضمن میں یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
مسلماں کس نے ہے تیرا ،گریباں چاک کر ڈالا
تری ماضی میں جو عزت تھی اس کو خاک کر ڈالا
محمد ایوب صابرؔ مسلمانوں کو متحد اور یکجا دیکھنے کا آرزو مند ہیں۔وہ مسلمانوں کو بھائی چارے ،خلوص اور انسانی ہمدردی سے رہنے کی تلقین و تاکید کرتےہیں۔اس حوالے سے یہ شعر دیکھیے:
اُمتِ مسلمہ ترا اتحاد اب اکسیر ہے
ہو سکے ممکن تو جینے کی یہی تدبیر ہے
صابرؔ نے عالمی تناظر میں امتِ مسلمہ کے مسائل کو بیان کیا ہے۔وہ امتِ مسلمہ کا خیرخواہ ،محافظ ،رہبر اور نگران ہے:
ایک ہو جاؤ مسلمانو ، عداوت چھوڑ دو
اپنے دست و بازو سے کرنا بغاوت چھوڑ دو
محمد ایوب صابرؔ سمجھتے ہیں کہ ‘‘اعزاز’’ انسان کی محنت ومشقت کا ثمر ہوتا ہے۔ آدمی اس کے حصول میں عمر گزار دیتا ہے ۔انھوں نے اعزاز کو فن کا اعتراف کہا ہے۔ وہ اعزاز کو انمول سمجھتے ہیں،یہ شعر دیکھیے:
سینے پہ لگا تمغہ کہیں بیچ نہ دینا
بازار میں ملتی نہیں اعزاز کی قیمت
محمدایوب صابرؔ کی شاعری میں اصلاحی رنگ بے حد غالب ہے ،اُنھوں نے مسلمانوں کو اپنے شان دارماضی اورشناخت کااحساس دلایا ہے۔ انھوں نے اپنی انقلابی افکار کو شعری پیکر عطا کرتے ہوئے موجودہ مسلم حکمرانوں کی بزدلی کا ماتم کیا ہے۔ ایوب صابر شاعرانہ لہجے میں ایک مصلح کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ وہ اسلامی دنیا کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ عالمی منظر نامہ پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے سقوطِ بغداد پر یہ اشعار کہے:
بغداد کے سب اہل مکیں کانپ رہے ہیں
سمٹے ہوئے کچھ گوشہ نشیں کانپ رہے ہیں
دنیا میں وہ تہذیب و تمدن کا نشاں تھے
اقدارِ مسلماں کے امیں کانپ رہے ہیں
محمد ایوب صابرؔ کی شاعری بڑی سبق آموز ہے ۔انھوں نے اسلام کے عقائد وتہذیب کو زیادہ موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے انسان اور انسانی زندگی کی تعمیر وتخریب کے عوامل کوبھی اپنے شعری متن کا حصہ بنایا ہے۔ کہیں کہیں وہ اپنے ترقی پسند ہونے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے اور مزدور کے ساتھ مکمل ہمدردی کااظہار بھی کیا ہے۔ صابرؔ نے غریب ،مظلوم ،نچلےاور پسے ہوئے طبقے کی نمایندگی کی ہے اور غریب کے استحصال پر مزاحمت کی ہے۔ اس ضمن میں یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
چیختے ہیں مظلوم بچارے
وقت کا حاکم بہرا دیکھا
مال پرایا اپنا کر کے
چور کو دیتے پہرا دیکھا
میں کسی منصف سے اب ، فریاد تک کرتا نہیں
میرا حق چھینا گیا ہے عادلوں کے درمیاں
محمد ایوب صابرؔ کی اردو غزل کا آہنگ اسلامی اور انقلابی ہے۔ ان کی ہنر آفرینی یہ ہے کہ انھوں نے موضوعات کو نبھانے کے لیے رومانوی طرز اظہار اپنایا ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال یہ ہے:
اندھیری شب میں صابرؔ کس لیے مایوس بیٹھے ہو
کسی جگنو سے تم نے استفادہ کر لیا ہوتا
ایوب صابر کی شاعری اسلامی اور عوامی موضوعات کا حسین امتزاج ہے۔ انھوں نے قرآن سب سے بڑا رہبر اور اسلام بہترین دین کے بیانیے کو اس طرح شعری پیکر عطا کیا ہے:
نیکی سے بڑا دنیا میں ، جوہر نہ ملے گا
بڑھ کر کوئی قرآن سے رہبر نہ ملے گا
دنیا کے مذاہب کو ذرا غور سے دیکھو
کوئی بھی دین اسلام سے بہتر نہ ملے گا
محمد ایوب صابرؔ نے اپنی غزلوں میں قوم کی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی ہے ۔وہ عزم ونظریے کا شاعر ہے۔ انھوں نے اسلاف کی اقدار اور وقت کے ہاتھوں بدلتی اور مٹتی ہوئی تہذیب کو موضوع بنایا ہے۔ ‘‘اعزاز کی قیمت’’ اور‘‘اذانِ سحر’’ کے بعد ‘‘اسلاف کی دستک ’’میں بھی ایوب صابر نے اقوام عالم میں سرخرو ہونے کے مضامین خوب نبھائے ہیں۔ انھوں نے اخلاقی اقدار کی پامالی ،عدل و انصاف کے فقدان اور اسلاف کے کارناموں کو شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ صابرؔ ایک لمحہ کے لیے بھی قیدِ ماضی سے رہا نہیں ہوا ،وہ کہتا ہے کہ جو قومیں اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں اور ماضی کو بھول جاتی ہیں وہ دنیا میں کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتیں۔ انھوں نے بالخصوص نئی نسل کو پیغام دیا ہے کہ اپنے اسلاف کی اقدار کی پاسداری کرو گے تو کام یابی تمھارے قدم چومے گی۔ ان کے مطابق معاشرے میں پھیلنے والی بے یقینی ،مایوسی،ناامیدی اور کم ہمتی اسلاف کی اقدار کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے:
شعورِ ذات میں شامل ہے گر اسلاف کی دستک
تو پھر کردار میں کیسے نہ ہو اوصاف کی دستک
مرے اجداد نے تو علم کے ابواب کھولے ہیں
یونہی گونجے گی صدیوں تک مرے اسلاف کی دستک
محمد ایوب صابر کی ساری شاعری خالصتاً فکراور خیال کی آئینہ دار ہے۔ انھوں نے شعریت ،نغمگی ،ندرت،سلاست ،روانی، تسلسل، مصرعوں کی بنت اورنشست وبرخاست پر زیادہ توجہ نہیں دی تاکہ یہ شعری تقاضے اس کی مقصدیت کے راستے میں حائل نہ ہوں۔صابرؔ کی شاعری پڑھ کر یہ احساس ابھرتا ہے کہ وہ ایک منبر پر کھڑا خطیب ہے جو للکار للکار کر واعظ کر رہا ہے اور قاری اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھا ہوا سامع معلوم ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ان کی شاعری میں اسلاف کی عظمت کا شعور ابھرتا ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
وہ پرندہ کس طرح کرتا زمانے کی تلاش
کر نہیں پایا جو اپنے آشیانے کی تلاش
منکشف ہوتا نہیں ہے اس پہ رازِ زندگی
جو حقیقت چھوڑ کے رکھے فسانے کی تلاش
اس افراتفری ،بے یقینی ،سیاسی اور اقتصادی بحران اور سماجی واخلاقی اقدار کی پامالی کے دور میں صابرؔ نے عوام کے ذہنوں پر اپنے انقلابی اور واعظانہ فکر وخیال سے زبردست دستک دی ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے معاشرتی بے اعتدالیوں اور ناہمواریوں پر طنز کے نشتر چلائے ہیں ۔اسی لیے ان کی شاعری میں شعری جمال کم اور داخلی آہنگ زیادہ نظر آتا ہے۔ وہ قوم کی شکست وریخت پر بڑے کرب سے گزرتا ہے اور عوامی مسائل اور مصائب پر اندر ہی اندر کڑھتا ہے:
اک شخص کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے چیخ
اپنے مکاں کی گرتی وہ دیوار دیکھ کر
آنکھوں کا پانی پلکوں کی سرحد پہ آ گیا
خیموں میں سر جھکائے وہ لاچار دیکھ کر
اکیسویں صدی کی اردو غزل کے اس جمگھٹےمیں محمد ایوب صابر کی غزل منفرد اسلوب ،مضامین اور اصلاحی وانقلابی آمیزش سے الگ شناخت بنانے میں کام یاب ہو گئی ہے۔ وہ معاصر اردو غزل نگاروں کی صف میں آگے آگے چلتے معلوم ہوتے ہیں۔ صابرؔ نے غزل سے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اصلاح معاشرت کا کام لیا ہے یہ انداز انھیں منفرد اور اختصاصی شاعر کے زمرے میں لاتا ہے۔اس حوالے سے محمد ایوب صابر کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیےاور مجھے اجازت دیجیے:
آج بھائی بھائی میں دولت کی خاطر جنگ ہے
کیسے کہہ دوں یہاں حرص وہوس باقی نہیں
جس دھرتی میں پیوست ہوں مظلوم کے آنسو
اُس دھرتی پہ کہتے ہیں کہ بارش نہیں ہوتی
احترامِ آدمیت کا نہیں جن کو خیال
وہ مسلط ہو رہے ہیں حکمراں در حکمراں
وہ اپنے جگر گوشوں کو ہی بیچنا چاہے
جس باپ سے بچوں کی کفالت نہیں ہوتی
اُس ملک میں ہر شخص پریشان ہے صابرؔ
جس ملک میں ہمدرد قیادت نہیں ہوتی
وہ جس نے جھگڑے کیے تخت وتاج کی خاطر
کوئی بھی کام کیا ہے سماج کی خاطر
ڈاکٹر ساحل سلہری