اے تعصب زدہ دنیا ترے کردار پہ خاک
بغض کی گرد میں لپٹے ہوئے معیار پہ خاک
ایک عرصے سے مری ذات میں آباد ہے دشت
ایک عرصے سے پڑی ہے در و دیوار پہ خاک
وہ غزالوں سے ابھی سیکھ کے رم لوٹا ہے
بال ہیں دھول میں گم اور لب و رخسار پہ خاک
مجھے پلکوں سے صفائی کی سعادت ہو نصیب
ڈال کر جائے ہوا روز در یار پہ خاک
ایک خطبہ جو دیا حضرت زینب نے خیالؔ
آج تک ڈال رہا ہے کسی دربار پہ خاک
احمد خیال