آوے کہنے میں رہا ہو غم سے گر احوال کچھ
جاں بہ لب رہتے ہیں پر کہتے نہیں ہیں حال کچھ
بے زری سے داغ ہیں لیکن لبوں پر مہر ہے
کہیے حاجت اپنی لوگوں سے جو وے ہوں مال کچھ
کام کو مشکل دل پر آرزو نے کردیا
یاس کلی ہوچکے تو پھر نہیں اشکال کچھ
دل ترا آیا کسو کے پیچ میں جو سدھ گئی
متصل بکھرے رہا کرتے ہیں منھ پر بال کچھ
ماہ سے ماہی تلک اس داغ میں ہیں مبتلا
کیا بلاے جان ہے میرا تمھارا حال کچھ
ایک دن کنج قفس میں ہم کہیں رہ جائیں گے
بے کلی گل بن بہت رہتی ہے اب کے سال کچھ
کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمھاری رال کچھ
میر تقی میر