اکثر یہ بات سننے پڑھنے میں آتی ہے کہ شیعہ اگر ملحد بھی ہو جائے تو رہتا شیعہ ہی ہے۔ پورا سال نہیں تو محرم کے 10 دن تو وہ ضرور امامی اور کربلائی نظر آئے گا۔
جون ایلیا کے اس مشہور شعر سے یہ بات ادبی دلیل بھی حاصل کر لیتی ہے
خدا نہیں ہے تو کیا حق کو چھوڑ دیں اے شیخ
غضب خدا کا ، ہم اپنے امام کے نہ رہیں
جوش ملیح آبادی کے الحاد اور دہریت کے ذکر کے ساتھ ہی ان کے لکھے مرثیوں کا خیال آ جاتا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کا ذکر جوش کی خود نوشت سوانح عمری ”یادوں کی بارات“ میں مل جاتا ہے۔ اپنے 100 لفظوں کی کہانی والے مبشر زیدی تو علانیہ دس دن کے لیے اثنا عشری بن جاتے ہیں۔ سال کے باقی دن وہ اپنے بقول ریشنل اگناسٹک ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ غم منانے میں اتنی کشش کیوں ہے کہ خدا اور مذہب سے الگ ہو جانے والے بھی کربلا کے ساتھ جڑے رہتے ہیں؟
میرے خیال میں اس کا جزوی جواب بچپن ثقافت اور نفسیات میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ان تینوں نکات پر بات کرنے سے پہلے ایک اور پہلو پر تھوڑی سی گفتگو کر لیتے ہیں۔
کربلا کے غم میں صرف مسلمانوں کو ہی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ بر صغیر کی گنگا جمنی ثقافت میں ہندو اور سکھ بھی غم حسین میں شریک نظر آتے ہیں۔ انتظار حسین نے حسینی براہمنوں کا ذکر کیا ہے جو عاشورہ پر ماتمی جلوس بھی نکالتے ہیں۔ ایک ہندو شاعر چھنو لال دلگیر نے میر انیس سے بھی پہلے کئی مرثیے لکھے۔ ان کا لکھا ہوا نوحہ ”گھبرائے گی زینب“ شام غریباں کے ساتھ گویا مخصوص ہو گیا ہے۔ اسی طرح مغربی معاشروں میں بھی حق کے لیے قربانی دینے کی کربل کہانی کئی غیر مسلم دلوں میں گھر کرتی ہے۔
مجھے لگتا ہے مظلوم کا ذکر، مجبور کی حمایت اور مقتول کی یاد انسانی سرشت میں شامل ہے۔ کچھ سبب تو رہا ہو گا کہ سانحہ کربلا مذہبی حوالے سے ہٹ کر بھی انسانی ضمیر میں پھانس کی طرح اٹک گیا ہے۔ بے پناہ شاعری ہوئی، بے حساب نثری ادب لکھا گیا، پوری ادبی و ثقافتی روایت وجود میں آ گئی۔ ہر سال اس روایت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مجھے اب تک کی زندگی میں صرف ایک دہریہ دوست ( غیر شیعہ) ایسا ملا ہے جو کربلا کو قطعاً درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔ اسی طرح مسلمانوں کے ایک خاص مسلک کے کچھ لوگ بھی ملے جو عاشور کا غم بدعت قرار دے کر رد کرتے ہیں۔ باقی سب کو میں نے بلا لحاظ مسلک، مبتلائے غم حسین پایا۔
ایک بار کسی نامعلوم شاعر کا یہ شعر بھی سننے میں آیا
میرے حسن قلم کا نام حسین
ورنہ کچھ بھی نہ تھے امام حسین
کہتے ہیں جوش ملیح آبادی بیوروکریٹ ہاشم رضا زیدی سے ناراض ہوئے تو پرچی پر یہ شعر لکھ کر انہیں بھجوا دیا
ہاشم رضا میں شمر ہے پورا چھپا ہوا
زیدی میں چاروں حرف ہیں شامل یزید کے
شعروں کی بات چل نکلی ہے تو سید مبارک شاہ کا یہ شعر بھی سنتے چلیں۔
دس روز تک روا ہے تجھے ماتم حسین
پھر اس کے بعد طاعت شمر و یزید کر
اب تھوڑی سی بات مذکورہ بالا تین نکات پر جو نہ حتمی ہے نہ مکمل۔
لڑکپن اور بچپن کی یادوں میں ہر کسی کے لیے خاص کشش ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا بچپن مجلس نوحہ نیاز کی سحر انگیز فضاؤں میں گزرا ہو وہ اس مہک کو تاحیات اپنے ساتھ پاتے ہیں۔ نظریہ بدل جانے سے یادیں نہیں بدل جاتیں۔
فوجی نوکری کے دوران میں ایسی دور دراز چوکیوں پر بھی تعینات رہا جہاں قریب انسانی آبادیاں نہیں تھیں۔ وہاں میں نے ایام محرم میں اپنے شیعہ ہم کاروں کو بے کل اور بے چین دیکھا۔ جیسے کوئی کتھارسس نہ ہو سکا ہو، جیسے سانس سینے میں گھٹی جاتی ہو۔ پھر وہ خود ہی کوئی نوحہ گنگنا کر اہتمام گریہ کر لیتے۔
ثقافت یوں تو بہت وسیع لفظ ہے۔ یہاں صرف اس قدر کہ ہر مذہب و مسلک کے اپنے ثقافتی مظاہر ہوتے ہیں۔ یہ کلچرل حوالے اعتقادی اور فکری حوالوں سے بھی مضبوط اور اثر آفریں ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے محرم کے جلوسوں کی بصری علامات اور نشانات پر ڈاکٹریٹ کی ہے۔ سجے سجائے بلند تعزیے، تیز رنگوں والے اونچے علم، شبیہ ذوالجناح، علی اصغر کا جھولا اور اس طرح کے بہت سے بصری مناظر اپنے اندر پوری ثقافت رکھتے ہیں۔ اسی طرح نوحوں، مرثیوں اور سلاموں کی پرسوز، دل دوز دھنیں، ماتم کی گونج، نعروں کی صدا کے سمعی اثرات گہرا ثقافتی پس منظر تشکیل دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر لطف گریہ اہل دل کو ساتھ بہا لے جانے کو کافی ہے۔
نفسیات انسانی میں یہ بات شامل ہے کہ تاریخ میں جہاں کہیں ظلم ہوا، اسے پڑھتے ہوئے انسان خود کو مظلوم کے ساتھ کھڑا پاتا ہے بشرطیکہ تاریخ لکھنے والے نے اسے مظلوم ہی بنا کر پیش کیا ہو۔ تاریخ میں تو یوں بھی ہوا ہے کہ جارح کی جارحیت کو اس کا حق اور مفتوح کی پامالی کا خود اس کو ذمہ دار بنا کر بھی دکھایا جاتا ہے۔
سوچنے سمجھنے اور لکھنے والے (جنہیں ہمارے دانشور دوست ڈاکٹر خالد سہیل تخلیقی اقلیت کہتے ہیں ) مفروضہ طور پر ایک انسان دوست ضمیر رکھتے ہیں۔ تاریخ میں جہاں جہاں خیالات و افکار کی پاداش میں کسی پر ظلم ہوا، باضمیر لکھاری اپنے اپ کو اس مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ بعض شخصیات کا انسانی حوالہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ان کا مذہبی حوالہ منہا ہو جاتا ہے۔ سقراط، ہائپیشیا اور جون اف آرک کا کوئی بھی مذہب ہوتا، تاریخ میں ان کی اتنی ہی عزت ہوتی۔
ایک روایت کچھ یوں ہے کہ حضرت نوح کے ایک بیٹے نے پوچھا میرے جد ہابیل کی شکل کیسی تھی؟ حضرت نوح نے ایک مسطح چٹان پر اس کی شبیہ کھینچی جو نسل در نسل تراش سے گزر کر ایک بت کی شکل اختیار کر گئی۔ کہا جاتا ہے کہ مکے کا بت ”ہبل“ یہی تھا۔ قطع نظر اس کے کہ روایت کی سند کتنی مضبوط ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہابیل یعنی مقتول ہی کی شبیہ کیوں محفوظ رہی؟ قابیل کی کیوں نہیں؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ظالم اپنے ظلم سے جسے مٹانا چاہتا ہو انسان کی اجتماعی یادداشت اسے یاد رکھنا ضروری سمجھتی ہو۔
شہزاد نیّرؔ