آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے
جو یہاں کی خاک ہے اِکسیر ہے
کام جو اُن سے ہوا پورا ہوا
اُن کی جو تدبیر ہے تقدیر ہے
جس سے باتیں کیں اُنھیں کا ہو گیا
واہ کیا تقریرِ پُر تاثیر ہے
جو لگائے آنکھ میں محبوب ہو
خاکِ طیبہ سرمۂ تسخیر ہے
صدرِ اقدس ہے خزینہ راز کا
سینہ کی تحریر میں تحریر ہے
ذرّہ ذرّہ سے ہے طالع نورِ شاہ
آفتابِ حُسن عالم گیر ہے
لطف کی بارش ہے سب شاداب ہیں
اَبرِ جودِ شاہِ عالم گیر ہے
مجرمو اُن کے قدموں پر لوٹ جاؤ
بس رِہائی کی یہی تدبیر ہے
یا نبی مشکل کشائی کیجیے
بندۂ در بے دل و دل گیر ہے
وہ سراپا لطف ہیں شانِ خدا
وہ سراپا نور کی تصویر ہے
کان ہیں کانِ کرم جانِ کرم
آنکھ ہے یا چشمۂ تنویر ہے
جانے والے چل دیئے ہم رہ گئے
اپنی اپنی اے حسنؔ تقدیر ہے
حسن رضا بریلوی