سیانے، غلام اور بندوقچی

ایک کالم از علی عبد اللہ ہاشمی

"سیانے، غلام اور بندوقچی”

غلام قومیں اس وقت تک غلام رہتی ہیں جب تک ‘سیانے’ ان کے درمیان موجود رہیں۔ یہ سیانے حاکم و محکوم کے درمیان توازن کو قائم رکھنے کیلئے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں جسکے عوض حاکم انہیں بڑے بڑے عہدوں، جاگیروں اور مراعات سے نوازتا ہے جبکہ محکوم انکو قادرِ مطلق کا نمائندہ اور نجات دہندہ جان کر حسبِ توفیق نذرانے اور تحفے تحائف دیکر خدمت گزار رہنا سعادت جانتے ہیں، اسطرح غالب و مغلوب کی مسابقت میں اصل مآل یہی سیانے بناتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ہندوستان بالعموم جبکہ پاکستان بالخصوص ان سیانوں کیلئے جنت مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ جس اعتماد سے یہ اس خطہ ارضی میں بڑھے اور پھلے پھولے ہیں وہ اپنے اندر ایک تاریخی معجزہ ہے کیونکہ بدنیتی پر مبنی اتحاد جلد ہی ایکدوسرے کی جڑیں کاٹنے لگتا ہے مگر یہ جس تمکنت سے تہترویں برس میں داخل ہوا ہے وہ حیران کن ہے۔ اس اتحادِ باہمی نے محمد علی جناح سے لیکر فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر بینظیر بھٹو تک سب کا بہیمانہ قتل کیا لیکن مطالعہ پاکستان سے لیکر سرکاری و نجی نشریاتی ادارے اسی کو حادی و مُنجی ثابت کرنے میں مشغول ہیں۔

فرنگیوں نے ایک منظم فوج اور سیانا برگیڈ کے تعاون سے 200 سال اس خطے پر حکومت کی جو 15 اگست 1947، انکے کاغذی انخلاء کے بعد اُنکے انہی دو انمول رتنوں نے سابقہ آجر کی تعلیمات پر اتحادِ منفعت کر لیا اور آجدن تک حکومتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ساجھی دار بن کے مملکت کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ دونوں نے اس کارِ خیر میں اپنا اپنا کردار آپس اندر یوں بانٹ رکھا ہیکہ بدماشیہ اسلحے، خلائی مخلوق اور نظریاتی و علاقائی سرحدوں کی نگہبانی کی آڑ میں ہر ذی روح کو یرغمال بنائے ہوئے ہے جبکہ اسکا سہولتکار سیانا ماورائے عدالت اغوا، قتل و غارت گری کیلئے جواز گھڑنے سے لیکر سیاسی اشرافیہ میں گھُس کر انکے راز پانے اور موقع آنے پر سیاسی قلابازی لگا کر بندوقچی(بدماشیہ) اتحاد کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر معمور ہے۔

ان سیانوں کی تین اقسام ہیں۔ اول پرانے جاگیردار، سرمایہ دار جو انگریز دور اور باپ دادا سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ دوم جرنیلوں اور 1947 کے بعد ابھرنے والے نئے سرمایہ داروں کے بچے جو اولاذکر میں شادی بیاہ کر کے شاملِ واجہ ہو گئے ہیں اور سوئم وہ کہ جو نہ جاگیر دار ہیں نہ سرمایادار مگر وہ بدماشیہ اتحاد کے نمائندہ بن کر اوپر اٹھنا چاہتے ہیں۔

جونہی ملک میں کوئی انقلابی آواز اُٹھتی ہے جو بدماشیہ کےمفادات پر ضرب لگائے تو بندوقچی اسے بھارتی، ایرانی، افغانی، صیہونی ایجنٹ یا پھر غدار کہہ کر دبانے کی کوشش کرتی ہے جس میں ناکامی یا عوامی ردِ عمل آنے پر ہر دم ہر جگہ حاضر و ناظر سیانوں کی فوجِ ریاکار کو بیچارے انقلابی کی صفوں میں گھسا دیا جاتا ہے جو ایکطرف تو بدماشیہ کے آنکھ اور کان بن کر انکے لیے مخبریاں کرتے ہیں دوسرا انقلابی نظریات کا سوانگ رچاء کر فیصلہ کُن عہدوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ اسکا عملی مظاہرہ پاکستانیوں نے تقریباً ہر الیکشن میں دیکھا ہے کیسے یہ سیانے بدماشیہ کے اشارے پر وفاداریاں تبدیل کر کے نئی جگہ سما جاتے ہیں۔ نہ انکا کوئی نظریہ ہے ناں ہی انہیں عہدوں وزارتوں کی کمی آتی ہے۔ جنرل ٹکا خان کے کہنے پر حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد روکنا اور فاروق لغاری جیسے بندے کیلئے پنجاب کو نظر انداز کر دینا پیپلز پارٹی کی تاریخ کی فاش ترین غلطیاں ہیں جو انہی سیانوں کو Oblige کرنے کے چکر میں ہم سے سرزد ہوئیں۔ ہوا یہ کہ 1988 الیکشنز پنجاب میں واضع برتری کسی جماعت کو نہیں ملی اور سردار دریشک وغیرہ کی قیادت میں 27 آزاد ممبران پارلیمنٹ کی حمائیت حکومت سازی کیلئے لازم و ملزوم ٹھہری۔ انکی اکثریت پیپلز پارٹی کی ہمدرد تھی اور انہوں نے ذوالفقار کھوسہ اور سردار دریشک کی سربراہی میں محترمہ سے ملاقات کی۔ محترمہ لغاری کو وزیراعلی دیکھنا چاہتی تھیں جس پر انہوں نے اعتراض کیا اور آزاد ممبران میں سے کسی کا انتخاب کرنے کی صلاح دی جسے بی بی نے رد کر دیا۔ پھر انہوں نے فاروق لغاری کے علاوہ کسی دیگر کو وزیراعلی بنانے پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر پنجاب حکومت بنانے کی آفر کی لیکن محترمہ لغاری کے علاوہ کسی نام پر آمادہ نہ ہوئیں۔ نتیجتاً یہ آزاد ممبران جونیجو لیگ میں چلے گئے جس سے نواز شریف وزیراعلی پنجاب بن گیا۔ بی بی نے لغاری کی ایم پی اے کی سیٹ چھڑوائی اور اسے وفاقی وزیر لگا دیا۔ دوسرے دور میں بی بی صاحبہ نے اسکو صدرِ پاکستان منتخب کرایا جو بعد ازاں یہی خائین مرتضی بھٹو کے قتل اور پیپلز پارٹی حکومت کو گھر بھیجنے میں بدماشیہ کا آلہ کار بن گیا۔

آصف زرداری دور میں اقوامِ متحدہ نے بینظیر قتل کیس کی اقوامِ متحدہ سے انکوائری کرائی۔ خاندانی سیانے شاہ محمود قریشی اس وقت وزیر خارجہ تھے جو انکوائری رپورٹ وزارتِ خارجہ کو موصول ہونے پر موصوف نے زرداری صاحب کو بتائے بغیر اس رپورٹ کو ریجیکٹ کر دیا اور مملکت کے مفادات کے منافی قرار دیکر واپس بھجوا دیا کیونکہ یہ رپورٹ بدماشیہ کے کردار پر سوالیہ نشان لگاتی تھی۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ بجائے اپنی بددیانتی پر شرمندہ ہوتے قریشی صاحب نے ریمنڈ ڈیوس کی سہولتکاری کا الزام بھی زرداری پر ڈالا اور کٹ لیئے۔ یہ تو سابق CIA ڈائریکٹر لیون پینیٹا کی کتاب آئی تو کھلا کہ اُسنے ڈی جی ISI جنرل شجاع پاشا کو CIA ہیڈکوارٹر لینگلے، ورجینیاء میں طلب کر کے ریمنڈ ڈیویس کی بحفاظت امریکی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا اور ریمنڈ ڈیویس کی رہائی کے موقع پر جرنیل موصوف اسی عدالت میں بیٹھے لیون پینیٹا کو SMS پر کارکردگی رپورٹ دے رہے تھے۔ شاہ محمود قریشی کو کسی صحافی نے یہ نہیں پوچھا کہ اس نے بِنا زرداری کے علم میں لائے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کس کے کہنے پر ریجیکٹ کی تھی۔

تیسرے درجے کے سیانے عموماً صحافیوں، شعراء، ادیبوں، شاعروں اور صاحب الرائے طبقات پر معمور ہوتے ہیں جو بدماشیہ کے لمبے ہاتھ دکھا کر بلکہ انجام بالخیر سے ڈرا کر رائے عامہ کو انکے حق میں متوازن رکھتے ہیں۔ اپنے پیش رووں کیطرح یہ بھی مختلف سیاسی جماعتوں اور لسانی گروہوں میں شامل ہوتے ہیں اور بندوقچی کیلئے معاشرتی نبض کا کام کرتے ہیں۔ یہ اندر کی باتیں لوگوں کو سنا کر اپنے کارآمد ہونے کا تاثر دیتے ہیں جبکہ در حقیقت جانے انجانے میں معاشرتی زوال کے محافظ بنے ہوتے ہیں۔

الحال آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر انہی سیانوں کی شاندار کارکردگی دیکھنے میں آئی ہے اور ہر طرف نظریاتی کارکنان کے زبردست ردِ عمل کے باوجود یہ بل بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی سے پاس بھی ہو گیا ہے۔ بظاہر لگتا یہ ہے کہ بلاول بھٹو اپنے کارکنان کی آواز پر عملدرآمد کرنا چاہتا تھا مگر بوجوہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب مریم نواز نے اسی مدعے پر مسلم لیگ ن کی نائب صدارت سے استغفی دیدیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان کے نزدیک ن لیگی قیادت لیٹی ہوئی ہے جبکہ ن لیگی لیڈران کے بقول پیپلز پارٹی بدماشیہ کیساتھ ملی ہوئی ہے۔ دونوں جماعتوں کے لیڈران اپنی اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے سے گھبرا رہے ہیں کیونکہ موجودہ سیاسی تناظر میں جبکہ فیصل واوڈا جیسے وزیر چاٹنے کیلئے بُوٹ ساتھ لیکر گھومتے ہیں، ان جماعتوں کا چھانٹی شروع کرنا بدماشیہ اتحاد کے کام کو مزید آسان کر دے گا۔ نئے پاکستان نے اب کی بار ماشاءاللہ سے بوٹ پالشیوں کی وہ نسل متعارف کرائی ہے کہ اس سے سستی صرف خاموشی ہی ہو سکتی ہے۔ ایسے میں اگر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنی صفوں سے بدماشیہ ایجنٹوں کو نکال باہر کرتے ہیں تو یہ موجودہ بوٹ چاٹ حکمرانوں کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہو گا اور اسی لیئے دونوں جماعتوں کی قیادت خاموش ہے۔ بلاول بھٹو آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی ووٹنگ میں شامل نہیں ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ نوجوان قائد فیصلہ مسلط کیئے جانے پر کافی سیخ پاء ہیں یہاں تک کہ پہلے سے شیڈولڈ پروگرامز کو کینسل کر کے عمرے کی نیت باندھ کر سعودی عرب چلے گئے ہیں
دوسری طرف مریم نواز کے برطانوی ویزے کی اطلاعات پر وفاقی کابینہ نے انکا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈال دیا ہے

قرائین بتاتے ہیں کہ سیانے اور بدماشیہ بیشک نالائق حکمرانوں کی کارکردگی پر بھِنائے ہوئے ہیں مگر ایسے ہاتھ بندھے غلماء پہلی بار ہاتھ آنے پر خوش بھی بہت ہیں اور اب کی بار اپوزیشن کی ناک زمین پر رگڑنے کے درپے ہو گئے ہیں۔ موجودہ سیاسی بیحودگی کسی اصول یا ضابطے کی پابند نہیں اور اپوزیشن کو سپیس دینے کی بجائے اسکا سانس گھونٹا جا رہا ہے جسکا نتیجہ بغاوت سے لیکر بغاوت تک کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ آزادی کیلئے اگر سیانوں کی بلّی ضروری ہے تو حکمران جتنے بھی چاپلوس نکل آئیں، جب بڑی عید آتی ہے تو قربانی ہو ہی جاتی ہے اور اس قربانی کے اسباب اللہ کی ذات مہیا کرتی ہے۔۔ پھر نہ کوئی بندوقچی کام آتی ہے نہ ہی کوئی مخلوق کیونکہ اسوقت امرِ الہی آ جاتا ہے ویسے بھی تہتر سال کے بدماشیہ اتحاد کو اکتیس برس کے بلاول اور 46 برس کی مریم سے لڑائی نہیں کرنی چاہیئے۔ نوجوان بحرحال نوجوان ہوتے ہیں۔

علی عبد اللہ ہاشمی

A Column By Ali Abdullah HashmiAli AbdullahAli Abdullah HashmiSalamSalam UrduSalam Urdu GhazalsSalamUrduUrdu ColumnsUrdu Writers
Comments (۰)
Add Comment