شہر کے سارے دادا گیروں سے
اَپنی بنتی نہیں ہے’ پِیروں سے
مشورے ٹھیک دینے لگ گئے ہیں
اِن دنوں تنگ ہوں’ مشیروں سے
شُکر ہے راستہ نہيں پوچھا
رائے مانگی تھی’ راہ گیروں سے
بدَ دُعا تک تو دے چکے ہیں تمھیں
اور کیا چاہیے ‘ فقیروں سے
یہ تو بہلَول آ گئے ورنہ
شاہ پِٹ جانا تھا ‘ وزیروں سے
اُس کے مرنے کا اِنتظار کرو
خُودکشی کر رہا ہے ‘ ہِیروں سے
کتنا سستا پڑا ہے مت پوچھیں
دل خریدا تھا ‘ بےضمیروں سے
یہ ترے ہاتھ کاٹ کھائیں گی
اِتنا اُلجھا نہ کر لکیروں سے
شاہ کی خلعتیں بُنی گئی ہیں
ہم فقیروں کی ‘ چند لِیروں سے
عمران عامی