پہاڑ کاٹتے دریاؤں کی روانی کو

صابر رضوی کی ایک اردو غزل

پہاڑ کاٹتے دریاؤں کی روانی کو
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں میں نوجوانی کو

نشان مٹتے چلے جا رہے ہیں قبروں کے
میں لے کے بیٹھا ہوں اب تک تری نشانی کو

ارادہ باندھ رہا تھا میں تیرے گاؤں کا
امڈ کے آ گئے بادل بھی سائبانی کو

دعا کے بعد بھی جب مجھ کو گھر نہیں ملتا
میں سوچ لیتا ہوں پھر تیری لا مکانی کو

جہاں پہ شور نے لوگوں کے کان پھاڑے ہوں
وہاں پہ کون سنے پھول کی کہانی کو

میں دیوتاؤں کی بستی کا آخری گونگا
بیان کیسے کروں اس کی خوش بیانی کو

بچھڑ کے کس طرح جینا محال ہوتا ہے
یہ بات مچھلی بھلا کیا بتائے پانی کو

اذاں کا سوز بھی ان پہ اثر نہیں کرتا
جو لوگ جرم سمجھتے ہوں نغمہ خوانی کو

وہیں سے شعر کا شجرہ شروع ہوتا ہے
جہاں سے لفظ جنم دے نئے معانی کو

صابر رضوی

GhazalGhazaliyaatSabir RizviSalamSalam UrduUrdu GhazalsUrdu Poetry
Comments (۰)
Add Comment