المصور کی ندا!
حمد ِباری تعالیٰ از سیدہ مصور صلاح الدین
منہ اندھیرے کہے جاتا ہے بلانے والا
باوضو در پہ کوئی ہے، مرے آنے والا
کوئی شکوہ ہو تو آ جاؤ، ملاقات کریں
یہی تو وقت ہے، اب سننے سنانے والا
میں ہوں رحمن، مرے پیار کا اظہار ہے یہ
ورنہ چپ کیسے رہے، غصہ دکھانے والا
تجھ کو میری ہے طلب، دل سے مجھے یاد تو کر
میں ہوں مائل بہ کرم، دوڑ کے آنے والا
میری حکمت تو ہر اک کام میں پوشیدہ ہے
وعدہ پرور ہوں ارے، میں ہوں نبھانے والا
نہ یہاں نیند ہے، نے اونگھ کی گنجائش ہے
میں ہوں شہ رگ پہ تری، آنکھ جمانے والا
کچھ سبب تو ہے کہ میں پردہ نشیں ہوں تجھ سے
یوں سمجھ راز نہیں ہے، یہ بتانے والا
مجھ کو معلوم ہے پانی کی حرارت کم ہے
اور جاڑا بھی ہے، اب تجھ کو ستانے والا
میں ہوں خالق، تجھے مخلوق بنایا میں نے
میں مصور ہوں ترا، تجھ کو بنانے والا
مصور کی لبیک !
پاوں سے روندتی اٹھ جاتی ہوں میں بستر کو
باوضو ہو کے ترے در پہ میں آنے والی
تیری آواز پہ کیسے نہ میں تجھ تک پہنچوں
تو نے آواز ہی دی ہے جو بلانے والی
تو اکیلا ہے کہاں، تو ہے محمد والا
اور محمد کی یہ امت ہے نبھانے والی
سارا دن رات کی آہٹ میں گزر جاتا ہے
رات ہی تو ہے مرے رب کو منانے والی
تجھ سے کوئ بھی شکایت نہ کوئ شکوہ گلہ
بات کیوں کوئ کروں دل کو دکھانے والی
لے میں توبہ کے سبھی پھول تری نذر کروں
تیرے در سے میں کہیں اور نہ جانے والی
تیرے پردے کے سبب ہی تو مجھے پیارا ہے
عشق کی رِیت نہیں دکھنے دکھانے والی
دل تو مسکن ہے ترا جان تجھے کیسے دوں
ایک ہی چیز ہے بس تجھ پہ لٹانے والی
گرمئ عشق ہو پانی بھی مزہ دیتا ہے
رات جاڑے کی لگے تجھ سے ملانے والی
میں نے مانا کہ تو رحمن میرے پیارے رحیم
میں مصور ہوں ترے ناز اٹھانے والی
سیدہ مصور صلاح الدین