- Advertisement -

ایک خط لکھنا ہے !

ایک افسانہ از اختر شیرانی

ایک خط لکھنا ہے !

رات کے چار بجے ہیں اور کوکب جو ابھی ابھی چوروں کی طرح اپنے مکان میں داخل ہوا ہے۔ ایک خط لکھ رہا ہے اُسے ایک خط لکھنا ہے ! صرف ایک خط مگر کتنا اضطراب انگیز۔۔۔۔ وہ سوچتا ہے۔ پھر لکھتا ہے۔ کبھی لکھتا ہے۔ پھر سوچتا ہے۔ اور زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ نہ سوچتا ہے، اور۔۔۔۔ اور نہ لکھتا ہے۔۔۔۔ صرف کسی دیوانے کی طرح بجلی کے قمقمے کو ٹکٹکی لگا کر دیکھتا ہے۔ اور لمحوں تک دیکھتا رہتا ہے۔
کیا کسی کو معلوم ہے کہ اُسے اِتنا اضطراب کیوں ہے ؟ کیا کوئی جانتا ہے کہ وہ اِن دیوانگی آمیز خیالات میں کیوں منہمک ہے ؟ شاید وہ خود جانتا ہے۔ اور اُس کے لیے یہ جاننا اور زیادہ تکلیف ہے۔ لیکن بہرحال وہ خط لکھ رہا ہے اور اُس کی حالت۔ بے چین۔ گھبرائی ہوئی۔ مجنونانہ حالت کہہ رہی ہے کہ اُسے صرف خط ہی لکھنا چاہئیے۔ آہ، یہ خط لکھنا۔۔۔۔ یہ بھی تو ایک فن ہے ! ایک صنعت ہے ! مگر اُس کی صورتِ حال گواہ ہے کہ یہ اُس کے لیے نہ فن ہے نہ صنعت، بلکہ ایک مصیبت ہے جس کا اندازہ کسی کو نہیں ہو سکتا۔ ایک ماتم ہے جس میں اُس کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا مگر وہ کیا کرے اُسے خط لکھنا ہے ! اُسے خط ضرور لکھنا ہے !۔۔۔۔
وہ اب "مے و مینا ” کی "یاریوں ” کا عادی نہیں رہا۔ کبھی کبھی اختر شماریوں میں ضرور مصروف رہتا ہے۔ مگر آج یہ آزاد۔ مگر ہر ایک کے "گرفتارِ نظر "ستارے بھی اُس کی دسترس سے باہر ہیں۔ وہ اپنے مکان کی چھت پر نہیں جا سکتا۔ وہ آج تمام رات کے لیے امرتسر گیا ہوا ہے۔ اُس کے گھر والے یہی سمجھتے ہیں۔ اُس نے اپنے گھر والوں کو یہی کہا تھا۔ اُس نے غلط بھی نہیں کہا تھا۔ جس حد تک بہانہ بنانے کا تعلق ہے۔ اُس نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ امرتسر جانے کے معنی ہیں گھر سے باہر رہنا اور وہ گھر سے باہر "رہنے "کے لیے گیا تھا۔ اُسے ذرا بھی اندیشہ نہ تھا کہ وہ ایک گھنٹے میں اپنے "خیالی امرتسر "سے واپس آ جائیگا۔ اُسے کیوں اندیشہ ہوتا وہ اِس سے پہلے بھی۔۔۔۔ مگر یہ "کئی سال "پہلے کی بات ہے !۔۔۔۔ ایسے ہی "خیالی امرتسر "میں دو راتیں۔۔۔۔ دو شاداب اور پُر کیف راتیں بسر کر چکا تھا! ایسی راتیں جو بوئے گل سے زیادہ لذیذ۔ مگر ساتھ ہی بوئے گل سے زیادہ سریع الاثر اور فانی ہوتی ہیں۔ فانی بھی ایسی کہ جن کی توقع خود فنا ہونے کے بعد بھی ممکن نہیں۔
ہائے وہ راتیں کہ جو خوابِ پریشاں ہو گئیں!۔۔۔۔
دنیا اِن راتوں کے وسیع، وسیع اور دلچسپ۔ دلچسپ اور حسین۔ حسین اور خواب گوں [صحیح لفظ یہ ہے ! ] حیثیت کا اندازہ نہیں کر سکتی۔۔۔۔ دنیا کی کیا بات ہے۔ شاید وہ ہستی بھی نہیں کر سکتی جو کوکب کی راتوں کا "موضوع "اُس کی نیندوں کا "عنوان "اور اُس کے خوابوں کی "بہشت "ہے۔
ہاں تو مدّتوں کے بعد اُسے ایک ایسی ہی رات کے حصول کی توقّع تھی۔ برسوں کے بعد وہ اپنی اُس "روحِ افکار "کو متجسّم "و متشکّل دیکھنا چاہتا تھا۔ مگر اُس نے نہیں دیکھا! اُسے شکایت تھی کہ وہ نہیں دیکھ سکا! تو کیا اُس کے ساتھ ظلم ہوا؟ کیا اُس کی راتوں کے۔ اُس کی برسوں کی راتوں کے تمام پریشان خوابوں کی کوئی تعبیر نظر نہیں آتی؟ کیا اُس کی "حسرتوں "کو اُس کی "تمنّاؤں ” کو اُس کی آرزوؤں کو بے رحمی کی ایک غضبناک ٹھوکر سے کچل دیا گیا؟۔۔۔۔ اُس کی پھٹی پھٹی آنکھیں اُسکی وحشت ناک نظریں۔ اُس کی دیوانہ وار طر ز۔ اُس کی آہیں (گو وہ بہت کم آہیں بھرتا ہے ) یہ سب بتلا رہی ہیں کہ اُس کے ساتھ بے انصافی کی گئی ہے اُس کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔ مگر وہ کیا کرے ؟ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ صرف ایک خط لکھنا ہے اور۔۔۔۔ بے چارہ یہی کر رہا ہے۔ اُس کا خط پورا ہو جانا معجزہ ہو گا! مگر اِس معجزے کی تکمیل کی دعا کون کرے ؟
کوکب نے آٹھ سال پہلے ایک خواب دیکھا تھا۔ ایک حسین، لذیذ، مگر اِن عارضی اور بے معنی الفاظ سے زیادہ صحیح یہ کہ "خواب نما خواب ‘‘۔۔۔۔ اُسے توقع تھی کہ وہی خواب آج اُس کی حسرت زدہ نظروں کو پھر نظر آ جائے گا۔ مگر اُس نے یہ "خواب "دیکھ کر جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ "خواب "بھی اب بجائے خود "خواب "ہو گیا ہے !
بیدل اور غالب بڑے معنی آفرین اور "نازک خیال "سمجھے جاتے ہیں مگر کوکب کے اِس "خواب نما خواب "کے خیال کے معنی نہیں سمجھ سکتے۔ ء
جس کے دل پریہ گزرتی ہے وہی جانتا ہے !
اور چونکہ کوکب کے دل پریہ سب کچھ گزرا ہے۔ اِس لیے اِس سے بڑھ کر اِن "خواب نما حقائق "کو کون جان سکتا ہے ؟ !
اُس کے خیالات کی رفتار کا اندازہ کسی کو نہیں ہو سکتا۔ اگر ہو سکتا۔ اگر ہو سکتا تو معلوم ہوتا کہ اُسکے تمام اضطراب میں مسرّت کا ایک ہلکا سا جزو بھی شامل ہے۔ یہ مسرّت کیا چیز ہے ؟ روح کے ایسے ایک ایسے دلچسپ "اضطراب "کا نام ہے جو بذاتِ خود "تکلیف دہ "ہوتا ہے مگر بظاہر قدرے خوشگوار معلوم ہوتا ہے لیکن کوکب کا، اُس کی روح کا یہ اضطراب ساکن سا ہے ! اُس کے "طوفانی تموّج ” میں "سست رفتاری "نظر آتی ہے ! اِس سستی کے یہ معنی ہیں کہ اضطراب کافی نہیں! اور اضطراب کافی نہ ہونے کا یہ مفہوم ہے کہ وہ مسرور قطعی نہیں! آہ! وہ مسرور کیوں کر ہو سکتا ہے ! اُسے اُس کی اُمید کے خلاف چند لمحے دیے گئے اور وہ بھی بڑی ہی بے دردی سے فوراً چھین لیے گئے ! اُن لمحاتِ رنگیں کوکس نے لُوٹا؟ اُن خوشگوار ساعتوں کو کس نے غارت کیا؟ وہ کسی "اور "کی آواز تھی۔ مگر وہ اُس کا ذمّہ دار اپنی اُسی "ساعتِ شیریں "کو سمجھتا ہے جسے وہ خط لکھ رہا ہے۔ مگر جسے اُس کا متالّم دل۔ اُس کی متاسف روح خط لکھنا نہیں چاہتی۔ کیونکہ وہ اُس سے ناراض ہونا چاہتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ کرے کیا؟ وہ خط لکھنے کے سوا کیا کرے ؟
اُس کی قلبی مسرّت کا جس حد تک تعلّق ہے وہ اِس شعر سے ظاہر ہو گی جو اُس نے "سر نامے "کی جگہ لکھا ہے۔ ء
جلوہ دیکھا تری رعنائی کا
کیا کلیجہ ہے تماشائی کا! ”
وہ یقیناً "ایک "سادہ پُرکار بچی "کے سحرِ جمال سے مسحور ہو رہا ہے ! وہ اپنی مظلومیت اپنی بے کسی۔ اپنی بے بسی اور اپنی "بے زبانی کے ہاتھوں مجبور ہے ! آخر وہ کیا کرے ؟ وہ نا شکر گذار نہیں! وہ اُس کی جھلک اور اُس ایک "یک لمحی "لمعۂ حُسن کا ممنون ہے ! مگر جس حد تک ممنون ہے ! اُس سے زیادہ پریشان! کیونکہ یہ جھلک! یہ تجلّی یہ لمعہ! بالکل عارضی ثابت ہوا۔ خندۂ گل اور تبسمِ شرار کی طرح! چشمکِ برق اور سایۂ ابرِ بہار کی طرح! اور اب۔۔۔۔ اب وہ پھر قلم رکھ دیتا ہے ! اب وہ پھر بحرِ خیال میں مستغرق ہو جاتا ہے ! ! اُسے حسرت ہوتی ہے کہ "وہ "بھی اُس کے ساتھ اُسی کے بحرِ خیال میں غوطہ زن ہوتی! مگر آہ یہ ناممکن ہے ! دنیا میں دو دلوں کا جذبۂ محبت یکساں ہو سکتا ہے۔ مگر خیالات یکساں نہیں ہو سکتے ! پھر وہ کیا کرے ؟ وہ اُسے کہاں سے لائے ؟ وہ اُسے کیونکر اپنا ہم خیال بنائے ؟ وہ اُسے کس طرح "یک جان دو قالب "کی "مہمل "مثال کے مطابق پائے ؟ (مہمل اِس لیے کہ ایسا کبھی سنا نہیں گیا!)
۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ وہ تنہا بھی تو نہیں ہے ! اُس کا "شوہر "موجود ہے ! کوکب کو اُس کی موجودگی سے کتنی ہی الجھن کیوں نہ ہو وہ موجود ہے تو کیا فطرت سے جنگ کرے ؟ کیا اِسے فطرت کی بے رحمی کا پہلے تجربہ نہیں ہوا؟ آہ! جو فطرت "یوسف کے بھائیوں "کو تباہ نہیں کر سکتی وہ "عزیزِ مصر "کا کیا بگاڑ سکتی ہے ؟ یہ فطرت ایک عجوزۂ کہن سال ہے ! بے رحم! بے درد! بے حیا! اور بے حمیّت! اُس کی نظروں میں ماہ و ماہی کی حیثیت یکساں اور مہ و مہر کی عزت برابر ہے !۔۔۔۔ بد مذاق! ابے ہودہ اور "غیر ضروری! "(غیر ضروری ہونا سب سے بڑی برائی ہے ! )خیر یہ فطرت تو یونہی ہے اور یوں ہی رہے گی! مگر کیا وہ دونوں اِس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ؟ کیا وہ دونوں کسی ڈوبتے ہوئے تیراک کی طرح اِس کی بے پناہ موجوں کا تھوڑا سا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے ؟ کیا وہ دونوں کسی "لنگرِ شکستہ "اور "نا خدا خفتہ "کشتی کی مانند چند لمحہ تک بھی اپنا "خیالی ثبات "(کہ یہ بھی ایک چیز ہے ) یا "ثباتِ خیال "قائم نہیں رکھ سکتے ! وہ دونوں یقیناً رکھ سکتے ہیں مگر اِس شرط سے کہ وہ دونوں ساتھ ہوں!۔۔۔۔ تو کیا اُن دونوں کا ساتھ ہونا ممکن ہے ؟ ممکن تو ہے مگر اُن دونوں میں سے اگر، ایک راضی ہو! ایک نمبر کی دعا ہی یہ ہے۔ مگر ایک نمبر کو کون راضی کرے ؟۔۔۔۔ کیا دنیا! یہ مہمل و بے معنی دنیا اِنہی "عنوانی "یا "موضوعی "تمہید کے مباحث کا شکار نہیں؟۔۔۔۔ اگر یہ صحیح ہے (اور یقیناً صحیح ہے ) تو اِنتہا تک پہنچنا معلوم! آخر یہ اِسی دنیا کے ایک فرد کی آواز ہے۔
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!
بس ایک "بے خبری "ہے سو وہ بھی کیا معلوم!
بایں ہمہ بے خبری، وہ اتنا جانتا ہے کہ اُس نے سر نامے پریہ شعر غلط نہیں لکھا
"جلوہ دیکھا تری رعنائی کا!
کیا کلیجہ ہے تماشائی کا؟ ”
اِس شعر کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سوچ رہا ہے کہ آج سے سات یا آٹھ سال پہلے شاید کبھی بھی اِس شعر کو استعمال نہ کرتا۔ کیونکہ اُس وقت حالات نے اُسے اپنی "محبوبہ "کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ہی نہ دیا تھا۔ اُس نے بالکل تاریکی میں اُسے دیکھا تھا(اگر تاریکی میں کوئی کسی کو دیکھ سکتا ہے ! ) با الفاظِ دیگر اُس کی روحی و دلی آنکھوں نے اُسے دیکھا تھا۔ مگر آج۔۔۔۔ آج کی رات اُس نے بجلی کا قمقمہ روشن کر دیا تھا۔ اور اُسے روشن کرنے کے بعد وہ کس طرح آگے بڑھی تھی۔ ایک خوشبوئے رواں! ایک نکہت خراماں! اور ایک شعاعِ رقصاں کی طرح! ! اُسے یہ تشبیہیں پامال معلوم ہوئیں۔ مگر لطف ضرور آیا۔۔۔۔ یہ تشبیہیں اُس کے خیالات کی ترجمانی کر رہی ہیں۔ اِس لیے وہ اُن کی پامالی کے باوجود مسکرا رہا ہے۔۔۔۔ یہ مسکراہٹ تشبیہوں کی صداقت اور موزونیت کی تائید ہے !۔۔۔۔
اور پھر وہ سوچ رہا ہے۔ سوچ رہا ہے اور ہنس رہا ہے ! ایک غمناک ہنسی! پھیکی! بے کیف! مگر معنی خیز! اب وہ اپنی اِس قیمتی مگر "محدود "رات کی شیرینی و تلخی اور رنگینی و غمگینی کے متعلق ایک مصرعہ گنگنا رہا ہے۔
"آج کی رات اُف او میرے خدا آج کی رات! ”
کسے اُمید ہو سکتی تھی کہ وہ "آج کی رات "کے متعلق اِس قدر "بے خودی "کا اظہار کرے گا؟ مگر وہ اِسی بے خودی میں کھویا ہوا ہے ! مست سرشار اور دیوانگی کے تمام لوازم کے ساتھ! اب اُس نے قلم رکھ دیا! اپنے خشک "ہونٹوں "کو "چوسا "ہم اِسے ہونٹ پر زبان پھیرنا نہیں کہہ سکتے ! وہ اِس بے تابی و استغراق سے اِس وارفتگی و اِشتیاق سے اپنے "زیریں لب "کو چوس رہا ہے گویا یہ اُس کا لب نہیں! کسی "اور "کا ہے ! اب ایک "بازاری "مثال اپنے حال کے مطابق اُسے "قال "کی شکل میں نظر آئی اور وہ پھر مسکرا دیا۔
"گویا رسید بر لبِ زیب الّنساء لبم!
آہ! اِس "گویا "کی سحر کاریِ وقت نے اُسے پھر بے خود کر دیا اور اُس نے پھر اپنے مصرع کو پڑھا! کسی قدر لحن مگر زیادہ تر بغیر الفاظ کے ساتھ
"آج کی رات ہے یا ہے مرے معراج کی رات ”
اِس تغیّرِ الفاظ کے خیال یا عمل پروہ پھر مسکرایا۔ اُس کی نظروں میں ایک تصویر پھِر گئی! ایک چلتی پھرتی تصویر! جو اِس طرح معلوم ہوئی۔ معلوم ہونے سے زیادہ محسوس ہوئی۔ گویا "تاج محل "نے ایک حسینہ کی شکل اختیار کر لی۔ مگر "تاج محل ‘‘۔۔۔۔ با ایں ہمہ عظمتِ فن ایک اور "حسینہ "کی قبر ہے ! وہ اپنی "زندہ محبوبہ "کے لیے اِس مثال کو کیونکر گوارا کر سکتا ہے ؟ یہ اُس کی "محبوبۂ شیریں کار "کی سخت توہین ہے۔ اِس کی بجائے وہ کیوں نہ سوچے، وہ کیوں نہ سمجھے کہ یہ تاج محل کی چلتی پھرتی تصویر نہ تھی۔ کسی مصّور کی تصویر تھی جو اُس کے البم سے نکل کر لاہور کی ایک شاندار عمارت میں چلتی پھرتی آ گئی!۔۔۔۔ آ گئی اور کسی بھُولے ہوئے خیال کی طرح یک لخت یاد آ کر تڑپا گئی! کسی لمحۂ حسین کے فراموشی کی حالت سے نکل کر زندگی، یاد اور تازگی کی حالت میں اُس کے ذہن کی فضا میں لہرا گئی! اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی فرشتہ اپنی تمام معصومیتوں اور "دیوتائیتوں "کے ساتھ سامنے آ گیا ہو!۔۔۔۔ لیکن کیا وہ واقعی کوئی فرشتہ تھا۔۔۔۔ اُس نے غور کیا تو یہ مثال بھی اُسے بری معلوم ہوئی! "فرشتہ "ایک "مذکّر "یہ اُس کی توہین ہے ! وہ یہ کیوں نہ محسوس کرے کہ کوئی بہشتی حور تھی جو اُمیدوں کی طرح مسکراتی ہوئی! اور کامیابیوں کی طرح رقص کرتی ہوئی اُس کے آغوش میں چلی آئی! مگر آغوش میں آنے کا واقعہ تو بعد کا ہے ! پہلے تو ایسا نہیں ہوا تھا! اُس نے ایک لرزشِ روحی کے ساتھ پھر اپنے ہونٹوں کو "چوسا ‘‘۔۔۔۔ اور پھر سر جھُکا لیا! اُسے یہ کیا یاد آ رہا تھا؟ کسی کے "ہونٹوں ” کی "خفگی "”رمیدگی "اور شاید، کشیدگی "! لیکن اتنے حسین و شاداب ہونٹوں کے لیے یہ الفاظ مناسب نہ تھے ! اُس کی نظروں کے سامنے ایک "تیتر ی "آ گئی۔ جس کی "رمیدگی "نے اُسے اپنی محبوبہ کے ہونٹوں کے "گریز "کی یاد دلا دی مگر کہاں وہ ہونٹ! وہ نرم یاقوت! لچکتے ہوئے ہیرے ! جن میں سرخی کا حِصّہ زیادہ تھا! اور کجا وہ "ورقِ رنگ "وہ تتلی! صرف ایک عکس! موہوم! مبہم! آہ! وہ ہونٹ اب اُسے کیوں یاد آ رہے ہیں؟ "وہ جانتا ہے کہ یہ کیوں یاد آ رہے ہیں! "وہ پھر مسکرایا "اُسی کا جاننا کافی ہے ! کافی۔۔۔۔ ! ! کتنا حقیر اظہار ہے اپنی اُمیدوں کا! وہ یہ کیوں نہ کہے کہ صرف اُسی کو جاننا چاہئیے مگر اُس لمحۂ حسین سے پہلے کیا ہوا تھا؟ وہ کمرے میں ایک لمحے کے لیے روشنی ہونے پر(ایک علامت) ٹھٹھک کر رہ گیا تھا۔ یاس و امید کی دو عملی میں یکایک انقلاب پیدا ہوا۔ وہ تیزی سے اُس کمرے کے قریب گیا۔ دروازہ آہستہ آہستہ کھلا۔ چق ہٹی! اور اُس نے ایک "نا قابلِ فہم غرور "کے ساتھ اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا کسی نے اُس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اوپر(صرف تین سیڑھیوں کے اوپر کھینچنے کی کوشش کی، پہلے اُس نے اِس آہستگی سے اُس سہارے کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے میں رکاوٹ ڈالنی چاہی۔ وہ چاہتا تھا کہ کوئی اُسے اوپر کی طرف کھینچے اور وہ کھینچ نہ سکے۔ اِس میں بھی ایک لذّت تھی! شائد ہی کوئی مرد ہو گاجو اِس لذّت کونہ جانتا ہو۔ مگر دفعتاً اُس نے کسی نازنین کے ہاتھ کی نزاکت کا اندازہ کیا اور۔۔۔۔ اُسی وقت اُسے ایسا محسوس ہوا گویا وہ ہوا میں پرواز کر رہا ہے اور پھر۔۔۔۔ وہ کس آسانی سے ایک برگِ گل کی طرح۔۔۔۔ ایک نکہتِ بے وزن کی طرح۔ دروازے میں پہنچ گیا۔ اب اُس کے ہاتھ نے کوئی اور ہاتھ۔۔۔۔ کسی اور کا ہاتھ ایک نرم و نازک چیز کی طرح اپنی گرفت سے نکلتا ہوا محسوس کیا۔ اور ساتھ ہی اونچی ایڑی کے زنانہ بوٹ کی "کھٹ کھٹ "سنائی دی۔ کوئی کمرے کے پچھلے حصے کی طرف لوٹ رہا تھا۔۔۔۔ وہ جہاں کا تہاں کھڑا رہا۔۔۔۔ اور یک بیک ایک تیز برقی قمقمے نے تمام کمرے کو "زندہ "کر دیا۔۔۔۔ زندہ اور روشن! اب وہ سوچتا ہے کہ خط میں اپنے اُن احساسات کو قلم بند کرے جو اُس کے دل میں اُس وقت پیدا ہوئے جب روشنی نے ایک "سروِ سیاہ پوش "کو یک بیک کمرے کی فضا میں نمایاں کر دیا! مسّرت کے کسی فوری جذبے کی طرح! لذّت کے کسی وقتی خیال کی طرح! مگراِس حیرت انگیز نظارے کی صراحت کے لیے اُسے الفاظ نہیں ملتے۔ ادب درماندہ معلوم ہوتا ہے اور شاعری عاجز، صحیح احساسات کو ظاہر کرنے کے لیے کوئی لغت اُس کی امداد نہیں کرتا۔ صرف ایک مصرعہ اُسے یاد آ رہا ہے۔
مشک آگیں تا بداماں عنبر افشاں تا کمر!
مگر یہ بھی صرف اُس "خوشبوئے رواں "کی ایک ہلکی سی جھلک کا ایک ہلکاسا اظہار ہے۔ دوسری رعنائیوں کا اظہار کیونکر ہو؟ وہ پھر اپنے احساس کا جائزہ لیتا ہے اگر وہ یوں لکھے کہ دنیا بھرکی رعنائیاں ایک مجسمے کی صورت میں جمع ہو گئی تھیں تو کیا اظہار کا حق ادا ہو جائیگا۔ نہیں! اُس نے عاجزی اور بے بسی سے گردن ہلائی اور پھر الفاظ کی بے کسی پرمسکرادیا۔ اُسے اِس کی کوشش نہیں کرنی چاہیے !
خاموش از ثنائے تو حدِّ ثنائے تست!
یہ مصرع اُس کی پریشانیوں کے لیے کسی قدر سکون کا باعث ہوا۔ آخراُسے اپنے درد کی دوا حافظ و خیّام کی زبان میں ملی اور وہ۔۔۔۔ وہ اپنی اُردو پر کتنا مغرور تھا! مغرور ہے۔ اب بھی ہے ! مگر اُردو کے قافیہ پیما شاعروں کی شاعری پر نہیں بلکہ اپنے مذاق، اپنے تخیّل اور اپنے اظہارِ بیان پر! گو آج وہ اپنے صحیح خیالات کا اظہار کرنے سے اپنی محبوب زبان کو عاجز پاتا ہے لیکن۔۔۔۔۔ اِس لیکن کے آگے اُس کے خیالات کی رفتار رک گئی۔۔۔۔ آخر وہ کسی کے حسن و جمال کی تاثیر کو ظاہر کرنے کی کیوں کوشش کرے ؟ وہ جانتی ہے کہ اُس کا "دلدادہ "اُسے اپنی تمام تمناؤں کے مطابق سمجھتا ہے !۔۔۔۔ کتنے معمولی الفاظ ہیں! "تمناؤں کے مطابق ہونا! "مگر کیا واقعی معمولی ہیں۔ نہیں۔ اِن سطحی الفاظ میں وہ تمام معانی پوشیدہ ہیں جو ایک محبت آشنا دل چاہتا ہے کہ اُس کا معنوی مخاطب سمجھے ! گو دنیا اُن کونہ سمجھے گی۔ مگر وہ دنیا کو کیوں سمجھائے ؟ دینا کی اُسے کیا پروا ہے۔۔۔۔ اب پھر خیال کی رفتاراُسے اُس کے حریمِ ناز میں لے گئی۔ وہ اُس کے حسن و شباب کی کیفیتوں کو ظاہر نہ کر سکاتو کیا ہوا؟ اپنی سرخوشیء خیال کواُس سے کون چھین سکتا ہے۔ اپنی سرشاریءوصال کواُس سے کون دُور کر سکتا ہے ؟۔۔۔۔ مگر کیا وہ اِس خط میں یہ بھی ظاہر کر دے ؟ شاید وہ برا مانے ! شرمائے ! حیا کی فریادی نظر آئے۔۔۔۔ اور اب اُسے وہ جھکی ہوئی نظریں یاد آئیں جو تین گھنٹے پہلے اُسے نظر آئی تھیں۔ اُن جھُکی ہوئی نظروں کے متعلق اُسے کئی باتیں سوجھیں یہ نظریں۔۔۔۔ یا آنکھیں(وہ سوچ رہا ہے کیا لکھے ! )بہرحال آنکھیں یا نظریں اُس وقتی روشنی میں اُسے دو معصوم حوروں کی طرح "محسوس "ہوئیں۔ دو حوروں کی یکجائی تصویر کی طرح۔ جس کی عقبِ پشت ایک شرمائی ہوئی مسکراہٹ تھی! جو عارضوں پر رقصاں تھی اور اب وہ سوچتا ہے شرمائی ہوئی نگاہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہیں یا مسکراتے ہوئے رخسار؟ پھر وہ اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ "نگاہِ انفعال "زیادہ ہلاکت آفرین ہوتی ہے ! مگر کیوں؟ اِسلیے کہ وہ ہمیشہ نظرسے دور رہتی ہے۔ اور غائب از چشم چیزیں فطرتِ انسانی کو ہمیشہ زیادہ دل پسندہوتی ہیں۔ مگر کیا یہ اُس کے پُرتبسّم عارضوں کی توہین نہیں ۔۔۔۔۔ وہ اِس فیصلے پر پہنچا کہ اُس کے نزدیک دونوں خاص اہمیت ( اور یہ اہمیت اُس معاملہ میں یکسر "حسن "ہے ! ) رکھتی ہیں۔ کیا اِن بحث آرائیوں سے زیادہ قابلِ غور یہ بات نہیں کہ جس طرح وہ نظریں اُس کے لیے جھُکی ہوئی تھیں اور اِس لیے "اُس کے لیے "تھیں۔ اُسی طرح وہ عارضی تبسّم(اورتبسّم وہی دل کشی رکھتا ہے جو عارضی ہو! ) بھی اُس کی آمد کا اُس کے خیرمقدم کا اظہار تھا اور یقیناً اُس کی ملکیت تھا۔ دنیا کی کوئی طاقت اُسے اپنی اِن "ملکیتوں "سے محروم نہیں کر سکتی۔ مگر آہ! یہ کیسامایوسانہ خیال ہے جواَب اُس کے دل میں خلش پیدا کر رہا ہے۔ وہ ایک اور مرد کی بیوی ہے ! کاش یہ مرد وہ خود ہوتا۔ اور اب پھر ایک گہری آہ! ایک افسردہ تبسّم! ایک مضطرب نگاہ! "وہ اُس کی ملکیت نہیں "اُس کاجسم دوسرے کی ملکیت ہے۔ لیکن وہ اُس کی "روح کا مالک "ضرور ہے۔ اُس نے خود بھی تو اپنے آخری خط میں اِس کا اعتراف کیا تھا۔ وہ ایک معصوم بچے کی طرح مسکرادیا "وہ حسین ہونے کے ساتھ ساتھ کتنی شریف ہے ! "”اُس کی شرافت کتنا بڑاحسن ہے "مگراِس حُسن کو صرف وہ دیکھ سکتا ہے۔ دنیا کی نگاہیں اِس قسم کے حُسن کو عام طور پر نہیں دیکھتیں اور زیادہ تر نہیں دیکھ سکتیں۔ اُس کے لیے اِس محرومی میں بھی، اِس مایوسی کے باوجود، اِس دائمی تنہائی کے ہوتے ہوئے بھی سامانِ غرور موجود ہے۔ اب وہ اپنے آپ کو مغرور محسوس کرتا ہے مگر یہ غرور کس کا عطیہ ہے ؟ اُس بے رحم لڑکی۔۔۔۔ اب وہ سوچتا ہے کہ اُسے لڑکی لکھے یا عورت۔۔۔۔ اُسے یاد آتا ہے کہ وہ اب اپنے لیے لڑکی کا لفظ پسندنہیں کرتی۔۔۔۔ مگر کیوں ؟ شایداِس لیے کہ لڑکی کے ساتھ قدرتاً بے وقوف کا لفظ چسپاں۔۔۔۔ محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔ اُس نے اپنے گزشتہ خط میں اپنے لیے "عورت "کا لفظ استعمال کیا تھا۔ وہ اب عورت ہے ! مکمل عورت! مگر یہ عورت!۔۔۔۔ اُسے یاد ہے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ ابھی۔۔۔۔ آٹھ سال پہلے وہ ایک سولہ سالہ لڑکی تھی۔۔۔۔ صرف آٹھ سال کی مدّت نے ایک دوشیزہ کو عورت کی صورت میں منتقل کر دیا۔ دوشیزہ سے عورت۔۔۔۔ اور اب اُسے یاد آیا کہ صرف یہی انقلاب پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ اُس سے کہیں زیادہ ظالمانہ طور پر وہ ایک لڑکی۔۔۔۔ ایک معصوم لڑکی کی فضاسے نکل کر۔۔۔۔ ایک بیوی بن چکی تھی۔۔۔۔ بیوی۔۔۔۔ اُس کی نہیں کسی!۔۔۔۔ کسی اور خوش نصیب کی۔۔۔۔ اُسے اِس خیال سے پھر رنج ہوا۔ ویساہی رنج جیساعام طورپراُسے ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ یہ رنج غصّے سے بدلا اور اُس نے سوچاوہ اُسے خوش نصیب نہیں کہے گا۔۔۔۔ کیوں؟۔۔۔۔ اِس لئے کہ وہ واقعی خوش نصیب تھا۔۔۔۔ وہ اُسے "بد معاش "کیوں نہ کہے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ مگر یہ اُس کا پیار کا تکیہ کلام تھا۔۔۔۔ وہ اُسے "بیوقوف ‘‘۔۔۔۔ بلکہ "ذلیل "کیوں نہ کہے۔۔۔۔ مگر کیا وہ اِن گالیوں کو پڑھ کر ناراض نہ ہو گی۔۔۔۔ ؟ کیا وہ اپنے "شوہر "کے لیے۔۔۔۔ شوہر "! ! آہ یہ کتنا درد ناک خیال ہے۔۔۔۔ مجبوری اور بے بسی! لاچاری اور بیچارگی اُسے پھرسرجھُکانے پر مجبور کر دیتی ہے۔۔۔۔ وہ اُس کے شوہر کو کتنی ہی گالیاں کیوں نہ دے ! کتنا ہی بُرا کیوں نہ کہے۔ مگر وہ اُس کے شوہرکواُس کا شوہر ہونے سے محروم نہیں کر سکتا!
اور اَب اُسے پھر اپنی "میزبان "کی "شرافت "کا خیال آیا۔۔۔۔ اُس نے اُس سے ملنا گوارا کیا۔۔۔۔ یہ کتنی بڑی بات ہے !۔۔۔۔ وہ کتنی رحم دل ہے ! وہ کیسی ہمدرد ہے ! اور ابھی۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے وہ اُسے بے رحم کہہ رہا تھا۔۔۔۔ بے رحم، بے درد۔۔۔۔ اور سنگ دل۔۔۔۔ مگر اُس نے غلطی کی۔۔۔۔ وہ غلط سمجھ رہا ہے۔۔۔۔ کیا وہ بے رحم، بے درد اور سنگ دل نہیں۔۔۔۔ ؟ ایسی نہ ہوتی تواُسے آج سے آٹھ سال پہلے کی طرح اپنی پوری رات کیوں نہ عنایت کر دیتی ؟ مگر اُس کی "بدگمانی "نے۔۔۔۔ ہاں آج رات وہ اُس کے طرزِ عمل سے "بدگمان "بھی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ کہیں اِس بدگمانی نے ہی اُسے جلد رخصت ہونے پر مجبور نہ کر دیا ہو۔۔۔۔ وہ اب یقیناً ایک ہوس کارانسان تھا۔۔۔۔ مگر کیا واقعی ہوس کاری اُس کا ایک محبوب مشغلہ بن چکی تھی۔۔۔۔ نہیں، وہ اُس کے لیے اب بھی پاکباز تھا! صرف اُس کے لیے پہلے کی طرح! ہمیشہ کی طرح! اپنی محبوبہ کی توقعات کی طرح!۔۔۔۔ مگرپھراُس نے، اُس لڑکی نے جو اَب ایک مکمل عورت بن چکی تھی۔ اور اِس لیے زیادہ وسیع القلب اور زیادہ رحم دل ہو چکی تھی۔۔۔۔ اُس نے اُسے کیوں اتنی جلد رخصت کر دیا۔۔۔۔ اُس نے اتنی بے رحمی، اتنی بے دردی، اتنی سنگ دلی کیونکر گوارا کی؟۔۔۔۔ آٹھ سال۔۔۔۔ آٹھ طویل سال (ایک سال بھی کتنی طویل مدت ہوتا ہے ) پھر آٹھ سال۔ اِن آٹھ سال کے بعد صرف ایک ملاقات اور وہ بھی عارضی! آہ اتنی عارضی! عارضی اور مختصر! ! مانا کہ کسی نے اُسے آواز دی تھی! مانا کہ اُسے جانا ضرور چاہیے تھا۔۔۔۔ مگر اُس نے اُسے آئندہ کے لیے کوئی اُمید کیوں نہ دلائی؟ اُس نے اُسے دوبارہ آنے کے لیے کیوں نہ کہا؟ اُس نے یہ کیوں کر برداشت کیا کہ وہ رنجیدہ ہوا! وہ کیوں کر لکھے کہ اُس کی بدگمانی صحیح نہ تھی! اُسے اِس قسم کا تذکرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے ! وہ کس طرح بتائے کہ اُس نے، اُس کی آٹھ سال بعد ملنے والی نے اُسے مشتبہ کیوں سمجھا؟۔۔۔۔
وہ کتنی باتیں کرنا چاہتا تھا! آٹھ سالہ واقعات کی روئداداُس کے گوش گزار کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر اِن تمام ارادوں کے باوجوداُسے ایک حرف تک کہنے کا موقع نہیں دیا گیا۔۔۔۔ پھر وہ اُسے بے رحم کیوں نہ سمجھے ! بے درد کیوں نہ کہے، سنگدل کیوں نہ جانے !
اور۔۔۔۔ اب وہ کیا چاہتا ہے۔۔۔۔ صرف ایک اور رات! پوری رات! اُس کی حسرتیں تو کہتی ہیں کہ آٹھ سال کے برابر۔۔۔۔ طویل رات! مگر اندیشے۔۔۔۔ زندگی اور دنیا کی حقیقت یہ بتاتی ہے کہ یہ ناممکن ہے۔۔۔۔ تو پھر ایک ہی رات سہی!
اُتنی ہی طویل سہی جتنی عام طور پر راتیں ہوا کرتی ہیں! وہ اُسے بھی غنیمت سمجھے گا۔ وہ اُس پربھی قانع رہے گا۔ وہ اُس سے بھی مطمئن ہو جائے گا۔۔۔۔ بشرطیکہ کسی بزرگ خاتون کی تیسری منزل سے آواز نہ آئے ! بشرطیکہ وہ جلد رخصت ہونے کی کوشش نہ کرے۔۔۔۔ بشرطیکہ۔۔۔۔ بشرطیکہ کسی بچے کے رونے کی آوازاُسے سنائی نہ دے ! ! !۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر کیا وہ خط میں یہ لکھ دے ! اگر اتنی جرأت ہو تو پھر یہ کیوں نہ لکھ دے۔
جو "ترا "بچّہ ہے۔ اے کاش "ہمارا "ہوتا! ! !

اختر شیرانی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از اختر شیرانی