اگر دونوں طرف سورج ترازو میں نہیں ہوتا
ترا سایہ مرے ساۓ کے پہلو میں نہیں ہوتا
وفاداری کا دعویٰ گریہ و زاری سے کیا کرنا
نمک جو خون میں ہوتا ہے آنسو میں نہیں ہوتا
ہر اک اُمید کو لازم ہے اک زرخیز مایوسی
اُجالا رات میں ہوتا ہے جگنو میں نہیں ہوتا
تو کیا تم ہجر کے لغوی معانی میں مقیّد ہو
تو کیا تم کہہ رہی ہو پھول خوشبو میں نہیں ہوتا
مجھے اچھا کہاں لگتا ہے بیساکھی میں ڈھل جانا
مگر میرا شمار اب دست و بازو میں نہیں ہوتا
مسافت منتظر ہے باپ کی پگڑی کے پیچوں میں
یہ وہ ادراک ہے جو ماں کے پلّو میں نہیں ہوتا
مجھے معلوم ہے کچھ راگ بے موسم نہیں ہوتے
مگر سازینہ ءٍ دل میرے قابو میں نہیں ہوتا
سہارا ہو نہ ہو میں ناٶ لے جاٶں گا ساحل تک
ہنر ملّاح میں ہوتا ہے چپّو میں نہیں ہوتا
مجھے درویش کے اِس رمز نے زندہ رکھا شاہد
کہ زہر احساس میں ہوتا ہے بچھو میں نہیں ہوتا
شاہد ذکی