اب بھی مجھ کو شکوہ چشمِ نم سے ہے
رِشتہ جس کا تنہائی کے غم سے ہے
ضعفِ دل کو عشق سہارا دیتا ہے
ورنہ تو ہر خوشبو بھی موسم سے ہے
بھیگی آنکھوں نے یہ عقدہ کھولا ہے
شب کی ساری مستی تو شبنم سے ہے
میں نے یوں اُمّید کا دامن تھاما ہے
جیسے بندھن ٹیسوں کا مرہم سے ہے
دُشمن زورِ بازو پر کیا نازاں ہو
اُس کے خونیں وار کی شہرت ہم سے ہے
آدم نے ہی دُنیا کو برباد کیا
دُنیا کی رنگینی بھی آدم سے ہے
اُجلا چہرہ چاند کے مانند ٹھنڈا ہے
گرمی تو زُلفوں کے پیچ و خم سے ہے
جان چکا ہے عہدِ نو بھی آخر کار
دھڑکن تو اَب ناصر کے ہی دم سے ہے
ناصر ملک