- Advertisement -

آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

حیات عبداللہ کا ایک اردو کالم

آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

سُنو! اے ساکنانِ ارض… ذرا زندگانی کے بکھیڑوں سے ہاتھ کھینچ کر اور کان دھر کر سنو! کہ یہ حُسن وجمال، یہ رعنائی وزیبائی، یہ ناز وانداز، یہ شان وشوکت اور یہ ادا وبانکپن سب عارضی ہی تو ہیں۔کسی کلف لگے کپڑے کی مانند سخت سوچیں، کسی خشک لکڑی کی مانند اکڑی گردن اور یہ ساری پھوں پھاں، چند دنوں پر ہی تو محیط ہیں۔ہمارے تن من کے اندر جتنی اور جیسی بھی پھونک بھری ہے اس نے تو نکل ہی جانا ہے۔غفلتوں کی رداؤں پر سلما ستارے اور نقشی دَبکے کی خوب صورت کڑھائی کر کے اسے اوڑھ کر سونے والو! یہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔کسی موجِ صبا اور بادِ بہار کی مانند اتراتا ہوا یہ حضرت انسان بالکل بے اختیار ہی تو ہے۔اسے یہ تک نہیں خبر کہ ہماری کون سی صبح آخری ہو گی؟ کون سی شام کو غروب ہونے والے سورج کے ساتھ ہی ہماری حیات کی بساط بھی لپیٹ دی جائے گی؟گھر سے کسی سفر پر نکلتے وقت ہمیں اتنا بھی پتا نہیں ہوتا کہ ہم اپنے پاؤں پر چل کر گھر لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔ہم اتنے بے خبر ہیں کہ یہ تک نہیں جانتے کہ ہم اپنے اعزّہ واقربا کے ساتھ وعدوں اور امیدوں کے طویل سلسلوں میں سے کسی ایک کو بھی پورا کر پائیں گے یا نہیں۔حادثے کا شکار ہونے والی کسی بھی گاڑی کے مسافروں کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ یہ اُن کا آخری سفر ہے۔اُن کے سان گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ فراٹے بھرتی گاڑی انھیں لمحہ بہ لمحہ موت کے نزدیک تر کرتی جا رہی ہے اور جب حادثہ ہوتا ہے تو پھر یکدم ہی دل کُرلا اٹھتے ہیں اور آنکھوں میں ایک کہرام مچ جاتا ہے۔
موت تو ویسے بھی چہروں کی شادابیوں کو بھسم کر ڈالتی ہے اور اچانک آ جانے والی موت تو ایک طویل عرصے تک پس ماندگان کے کیف وسرور کو مٹا ڈالتی ہے۔اس درد کی گہرائی کا ادراک فقط وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ایسے جان کاہ حادثات سے گزرے ہوں۔ماہِ رمضان کی سعید ساعتیں جلوہ فگن ہیں۔یہ رحمت مآب مہینا بہت جلد بیت جائے گا۔ایک ایسا ماہِ مبارک جس میں اللہ ربّ العزّت اپنے اصولوں اور ضابطوں کو بھی بدل دیتا ہے۔منہ کی بدبو سے ہر کسی کو کراہت ہوتی ہے مگر روزے دار کے منہ کی بدبو اللہ کو ہمہ قسم کی خوشبوؤں سے بھی زیادہ پسند ہے۔ایک ایسا ماہِ مقدّس جس میں جنّت الفردوس کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کو مقفّل کر دیا جاتا ہے۔وہ ماہِ مبین جس میں شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ایک ایسا ماہِ سعید جس میں عمرے کا ثواب حج کے برابر ملتا ہے۔ایک ایسا برکت آفریں مہینا جس میں اگر تمام روزے رکھ لیے جائیں اور راتوں کو قیام کر لیا جائے تو اس طرح گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا ہے۔یقیناً اس مقدّس مہینے کی رحمتوں سے بھری ساعتیں جلد ختم ہو جائیں گی۔معلوم نہیں آئندہ یہ ماہِ صیام کس کس کو دیکھنا نصیب ہو گا ؟ذرا اپنے اردگرد نظریں دوڑا لیجیے! آپ کو کتنے ہی ایسے لوگ دُور دُور تک بھی دکھائی نہیں گے جو گذشتہ ماہِ رمضان میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ جانے والے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس ماہِ مبارک میں ہمارے پاس نہیں۔کہیں اور جا بسنے والے اُن لوگوں کی واپسی کا تصوّر ہی محال ہے۔ایک ایسی جگہ جہاں اعمال کا سلسلہ منقطع کر دیا جاتا ہے۔ہمیں تو یہ ادراک بھی نہیں کہ آئندہ رمضان تک ہم میں سے کون کون سا شخص یہ دنیا چھوڑ جائے گا۔ہمیں شعور تک نہیں کہ کون کون سے لوگ ہمارے گرد درد کے حصار کھینچ کر یوں رخصت ہو جائیں گے کہ پھر ان کے چہروں کی جھلک اور مسکراہٹوں کی چھنک تک کبھی سنائی نہیں دے گی اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہم خود ہی آئندہ رمضان دیکھ ہی نہ پائیں۔اچانک موت کا شکار ہونے والا ہر شخص ہی موت کے تصوّر سے غافل ہو کر مطمئن ومسرور بیٹھا ہوتا ہے کہ ابھی مجھے موت نہیں آئے گی۔تشکیک کا یہ بھالا ہر کسی کے من میں کھب چکا ہے کہ شاید ہم سو سال تک زندہ رہیں گے۔
موت جس جوان رعنا کو بھی اچکتی ہے وہ ایسی ہی خوش گمانیوں میں جکڑا ہوتا ہے کہ ابھی تو میں جوان ہوں، ابھی میری عمر ہی کیا ہے؟ ابھی میں نے دیکھا ہی کیا ہے؟ میں تو بوڑھا ہو کر مروں گا۔وہ مستقبل کے تانے بانے بُننے میں مصروف ہوتا ہے کہ اچانک ہی پیامِ اجل آ جاتا ہے اور پھر زندگی کا سارا طرب، گہرے کرب میں ڈھل جاتا ہے۔موت کا فرشتہ بیل بُوٹے اور گوٹا کناری سے مزیّن اس غفلت کی چادر کو آنِ واحد میں نوچ پھینکتا ہے اور حسین وجمیل چہروں کو یوں اچک لیتا ہے کہ کسی نے کبھی سوچا تک نہیں ہوتا کہ انجام اس قدر بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔
آن کی آن میں کسی کی مسکراہٹوں سے لدی دنیا ہی لٹ جاتی ہے، پلک جھپکتے میں انسان کے منہ پر منوں مٹی آ جاتی ہے اور وہ دن بڑی تیزی کے ساتھ ہماری سمت بڑھ رہا ہے جو ہماری زندگی کا آخری دن ہو گا۔موت کا فرشتہ ہماری سانسوں کو بھی سینت لے گا۔یقیناً وہ دن ہر کسی کی زندگی میں ضرور آئے گا جب مساجد میں ہماری نمازِ جنازہ کے لیے بھی اعلان ہو گا۔جب ہمیں بھی تختے پر لٹا کر آخری غسل دیا جائے گا۔جب ہمیں بھی سفید لٹّھے کے کفن میں لپیٹ کر قبر بُرد کر دیا جائے گا۔اس تلخ حقیقت کا شعور تو ہم سب کو ہے مگر جس غلط فہمی کے دھندلکوں نے اس پر پردہ ڈال کر ہمیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے وہ یہی ہے کہ یہ دن ابھی نہیں آنے والا۔میں تو بہت سالوں تک زندہ رہوں گا مگر موت کے فرشتے نے کتنے ہی نوجوان اس فریب سے کھینچ لیے، کتنے ہی چاند سے مکھڑے خاک میں ملا دیے۔
ماہِ صیام کی ان رحمتوں اور برکتوں سے شاداب لمحات کا تقاضا ہے کہ سب ہی تائب ہو کر اللہ کے پسندیدہ بندے بن جائیں اور اس ماہ مبارک میں ہم جو بھی نیکیاں کر رہے ہیں، سب نہ سہی ان میں سے کچھ پر تو دوام اختیار کر لیں۔سنو، اے کرّہ ء ارض کے باسیو! یہی اصل کامیابی ہے، یہی صراطِ مستقیم ہے اور یہی فروزاں اور جھلملاتی ردا ہے جس کو اوڑھ کر زیست کے لمحات تمام کرنا ہی مومن کا شیوہ ہے۔
زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

حیات عبداللہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از افروز عالم