ترے بدن سے بہتی ہیں، یہ لہریں آب کی
سرِ بیکراں چھپی ہیں، کہانی خواب کی
حسنِ اسرار، جو چھپا، نیلے پردے تلے
جیسے گہرے سمندر میں دنیا ہے آب کی
نظر کی قید سے آزاد، تیرے راز ہیں
چھپا ہے جوہر کہیں، روشنی کے باب کی
یہ نیلا رنگ، یہ سازش، یہ خوشبو ہوا کی
کہ جیسے جل رہی ہو خوشبو گلاب کی
تری چھب دیکھ کر، ٹھہر گئی ہے یہ ہوا
کہ خامشی بھی سنتی ہے، دھڑکن حساب کی
تو ہے سراب، حقیقت، یا خوابوں کی گواہ؟
نہیں ہے حد، جہاں میں صورتِ مہتاب کی
شاکرہ نندنی